1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. حیف ہے اس قوم پر

حیف ہے اس قوم پر

منافقت کی بھی کوئی حدہوتی ہے۔ پورے ایک ہفتے تک قوم کو ہیجان میں مبتلا رکھنے کے بعد سیاپہ فروش صحافیوں اور اناﺅں کے اسیر ہوئے مفکروں اور سیاست دانوں کی اکثریت منگل کی شب سے اطمینان کااظہار کررہی ہے۔ وہ شادا ںہیں کہ جمہوریت ”بچ “گئی ہے۔ کسی ”تیسری قوت“ نے مداخلت نہیں کی۔

”تیسری قوت“ مگر صرف فوج ہی نہیں ہوتی۔ ہر وہ قوت ہوتی ہے جو عوام کو کسی نہ کسی حوالے سے بالکل جوابدہ نہ ہو۔صرف سیاست دان ایسی جوابدہی کے لئے 24/7 میسر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے مخالفین ہوتے ہیں۔ یہ مخالفین ان کے بارے میں جھوٹی سچی کہانیاں پھیلاتے رہتے ہیں۔ الزامات کا نشانہ بنے لوگ صحافیوں کے سامنے اپنی صفائیاں پیش کرتے ہیں۔ مخالفین پر جواباََ الزامات لگاتے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات کی یہ جنگ بالآخر انتخابات کے ذریعے عوام کو یہ موقعہ فراہم کرتی ہے کہ وہ طے کریں کہ کون جھوٹا تھا اور کون سچا۔

حقیقت خواہ کچھ بھی رہی ہو۔ صحافیوں اور سیاستدانوں کی ایک موثر تعداد نے یکسو ہوکر پیپلز پارٹی کو 2008ء سے 2013ء تک مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے رکھا۔ ہیلری کلنٹن اور جنرل کیانی کے ٹیلی فونوں اور نواز شریف کے لانگ مارچ کی بدولت بحال ہوئے ”مسیحا“ نے اس جماعت کی حکومت کو ایک پل بھی چین کا نصیب نہیں ہونے دیا۔

اسی دوران اس کا اپنا لاڈلا بیٹا-ارسلان-زندگی کے لطف اٹھاتارہا۔ ہم آج بھی پوری تفصیلات کے ساتھ یہ نہیں جان پائے ہیں کہ موصوف کا اصل کاروبار کیا تھا۔ وہ کونسی ”گیدڑسنگھی“ تھی جس نے بلوچستان کے ڈومیسائل کی بدولت ڈاکٹری کی تعلیم پانے والے اس نالائق طالب علم کو ہسپتالوں میں پہنچے مریضوں کی مسیحائی کے بجائے پولیس میں شامل ہوکر ”قوم کی خدمت“ پر مجبور کیا۔ اس نے پولیس بھی کیوں چھوڑدی اور ہونہار بروا کے تخلیقی ذہن نے کیسے ککھ سے لکھ پتی ہونے کی راہ دریافت کی۔

ارسلان اور اس کے ابو نے زندگی سے بھرپور لطف اٹھائے۔ پیپلز پارٹی مگر 2013ء کے انتخابات کے بعد سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ آج بھی اس کی سیاسی بحالی کے امکانات تقریباََ ناممکن دکھائی دے رہے ہیں۔ اسے اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا 2013ء کے انتخابی عمل کی بدولت مل چکی ہے۔

پاکستانی سیاست میں اقتدار پر قبضے کی جنگ میں مبتلا اس وقت اصل فریق صرف دو ہیں:عمران خان اور ان کی تحریک انصاف اور شریف خاندان کی پاکستان مسلم لیگ (ن)۔ الزامات اور جوابی الزامات کا طوفان ان دونوں کے مابین مسلسل برپا رہتا ہے۔ امید تو یہ کرنا چاہیے کہ 2018ء کے انتخابات میں بالآخر عوام کو یہ حق ملے گا کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے طے کردیں کہ ان دونوں میں سے کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ 2018ء کا مگر انتظار کرنے کو نواز شریف کی اندھی نفرت میں مبتلا ہوئے لوگ ہرگز تیار نہیں۔ موصوف کو وقت سے پہلے ہٹانے کے لئے دھرنے دئیے جاتے ہیں۔ ان دھرنوں کا اصل مقصد ”ایمپائر“کو اس امر پر مجبور کرنا ہے کہ وہ اُنگلی کھڑی کرکے نواز شریف کو اقتدار سے باہر نکال دے۔

جس ”ایمپائر“ کی اُنگلی کھڑی ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے اس کا نام ہر ایک کو معلوم ہوتا ہے۔ خوئے غلامی میں مبتلا ذہن مگر استعاروں سے کام چلاتے ہیں۔ حال ہی میں عمران خان نے اسلام آباد کی تالہ بندی کا جو منصوبہ بنایا تھا اس کا حتمی مقصد ”کاکڑ فارمولے“ کو دہرانا بتایا گیا تھا۔

یہ فارمولہ جنرل وحید کاکڑ سے منسوب ہے۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی بے وقت اور اچانک موت کے بعد انہیں غلام اسحاق خان نے چیف آف آرمی سٹاف نامزد کیا تھا۔ سنیارٹی کے حوالے سے موصوف اس عہدے کے لئے مناسب سمجھے جانے والوں کی فہرست میں ہرگز شامل نہیں تھے۔ ان کا انتخاب کرتے وقت بنوں سے آئے غلام اسحاق خان نے جنرل وحید کے ”کاکڑ“ ہونے کو اہمیت دی تھی۔ انہیں گمان تھا کہ یہ ”کاکڑ“ پنجاب سے آئے نواز شریف سے انہیں محفوظ رکھے گا۔

پاکستان کی افسر شاہی کے انتہائی کائیاں نمائندہ سمجھے جانے والے غلام اسحاق خان مگر سمجھ ہی نہ پائے کہ نواز شریف اور مرحوم آصف نواز جنجوعہ کے درمیان جو اختلافات تھے وہ ہرگز ذاتی نہیں تھے۔ یہ دو Institutions کے مابین کش مکش تھی۔ اس سوچ کے حوالے سے بنیادی اختلاف کہ ریاستِ پاکستان کے بارے میں بنیادی فیصلے کرنے کا اختیار کس کے پاس ہونا چاہیے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے اچھے یا بُرے وزیر اعظم کے پاس یا ریاست کے اس دائمی ادارے کے پاس جو شاندار انداز میں منظم ہے اور جس کے پاس اپنی قوت کے اظہار کے بے پناہ وسائل بھی موجو د ہیں۔

جنرل وحید کاکڑ نے بالآخر اپنے ادارے ہی کا ساتھ دیا تھا۔ نواز شریف سے استعفیٰ لیا تو غلام اسحاق خان سے ایوانِ صدر بھی خالی کروایا۔ اس کے بعد انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار اس ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔

کاکڑ فارمولہ اس بار دہرایا نہیں گیا ہے۔ اس کے بارے میں خوشی کے شادیانے بجانے کا مگر ہرگز کوئی جواز موجود نہیں۔ اناﺅں کے اسیر ہوئے ہمارے سیاست دانوں نے پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد سے اُٹھے طوفان کاایک منتخب پارلیمان کے ذریعے ہرگز سامنا نہیں کیا ہے۔ FIA،NAB اور دیگر ریاستی ادارے اس ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کر پائے۔ ایسا کوئی قانون ہی اس بدنصیب ملک میں موجود نہیں ہے جو اپنی ساکھ اور آئینی اور قانونی اختیارات کی بدولت ایسے طوفانوں میں سے سچ اور صرف سچ کو ہمارے سامنے لاسکے۔ سیاستدانوں کا فرض تھا کہ وہ قانون سازی کے ذریعے ایک ایسے ادارے کو ہمارے سامنے لے کر آتے۔ جھوٹی اناﺅں کے اسیر ہوئے ہمارے سیاستدان مگر ذہنی اعتبار سے بونے ہیں۔بالآخر ”تیسری قوت“ سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگئے۔ وہ ”تیسری قوت“ اگر کوئی ”جنرل کاکڑ“ نہیں تو سپریم کورٹ ضرور ہے۔

سپریم کورٹ اصولی طورپر ایک اپیل کورٹ ہے۔ کوئی تنازعہ ماتحت عدالتوں کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اس کے سامنے آنا چاہیے۔ایسا کرنا یوں بھی ضروری ہے کہ سپریم کورٹ جب کسی معاملے کو براہِ راست اپنے ہاتھ میں لے کر کوئی فیصلہ صادر فرمادے تو اس کے خلاف اپیل کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ سپریم کورٹ پر اعتماد میرا جزوِ ایمان ہے۔ اگرچہ جان کی امان پاتے ہوئے یہ بات بھی یاد رکھنا پڑتی ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت کے چند فیصلوں نے اس ملک کے لئے بہت مصیبتیں بھی کھڑی کی تھیں۔ کہانی گورنر جنرل ملک غلام محمد کی جانب سے کئے ایک فیصلے کے بعد سے شروع ہوتی ہے جس نے بالآخر جنرل ایوب خان کو 1958ء میں مارشل لاء لگانے پر مجبور کیا۔ اس اقدام کو آئینی جواز فراہم کیا گیا۔ اس آئینی جواز کی بدولت ایوب خان کے بعد جنرل ضیاء،یحییٰ اور جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضے کئے۔ من مانیاں کیں۔

فوجی آمروں کی من مانیوں نے ہمارے ملک کو جو نقصانات پہنچائے ان کا حساب کتاب کبھی نہیں ہوا۔ نقصانات کی شدت کو مگر سب محسوس کرتے ہیں۔ اس کے باوجود لاعلاج اذیت پرستوں کی طرح اس”دیدہ ور“ کا انتظار بھی جاری رہتا ہے جو ”میرے عزیز ہم وطنو“ کہے اور دُکانوں سے مٹھائیاں ختم ہوجائیں۔

بہرحال پانامہ دستاویزات کی بدولت اُٹھے طوفان نے بالآخر معاملہ پارلیمان کے بجائے ایک ”تیسری قوت“ کے روبروپیش کردیا ہے۔ اناﺅں کے اسیر ہمارے بونے سیاست دانوں کو اپنی نااہلی اور بے بسی عیاں ہوجانے کے بعد شرم کے مارے اپنے منہ چھپالینا چاہیے تھے۔ چودھری نثار علی خان مگر سپریم کورٹ کی جانب سے اس امر کے اظہار کے بعد کہ وہ پانامہ دستاویزات میں لگے الزامات کا ازخود جائزہ لے گی، فخر بھرے اطمینان کے ساتھ ایک طولانی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے رہے اور عمران خان کے بنی گالہ میں وجد بھرے نغمات پر والہانہ رقص ہورہا تھا۔ جس نے ایسے سیاستدان پیدا کئے ہیں۔