1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. رحمت عزیز خان/
  4. چترال سے بابر چترالی لڑکیوں کی شادی اور قتل کا معاملہ

چترال سے بابر چترالی لڑکیوں کی شادی اور قتل کا معاملہ

چترال سے باہر کی شادیوں سے معصوم چترالی لڑکیوں کا قتل ایک گھناؤنا عمل بنتا جارہا ہے جو ان مظلوم خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چترالی معاشرے کے لیے یہ ایک انتہائی پریشان کن رجحان ہے جسے فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔ اس طرح کی گھناؤنی حرکتیں نہ صرف ان لڑکیوں کو ان کی زندگیوں سے محروم کر دیتی ہیں بلکہ چترال کے پر امن کھوؤ معاشرے کے سماجی تانے بانے کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں جو ہمیشہ اپنی رواداری، امن پسندی اور شاندار اقدار کے لیے جانا جاتا ہے۔

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ چترالی لڑکیاں غیر چترالی مردوں کو شادی کے لیے کیوں دی جاتی ہیں۔ اس کے پیچھے ایک بنیادی وجہ خطے میں مواقع اور وسائل کی کمی ہے۔ چترال میں بہت سے خاندان غریب ہیں، اور وہ غیر چترالی مردوں سے شادی کو اپنے مالی حالات کو بہتر کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مزید برآں، کچھ خاندانوں کا خیال ہے کہ اپنی بیٹیوں کی شادی دوسرے علاقوں کے مردوں سے کرنے سے ان کی سماجی حیثیت میں اضافہ ہوگا اور انہیں بہتر امکانات فراہم ہوں گے۔

تاہم یہ وجوہات معصوم چترالی بچیوں کے بہیمانہ قتل کا جواز پیش نہیں کر سکتیں۔ ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی جانوں کی حفاظت کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ چترالی برادری کو انسانی زندگی کی قدر اور تنوع کے احترام کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے۔ تمام ثقافتوں اور نسلوں کی رواداری اور قبولیت کو فروغ دینا اور کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کی حوصلہ شکنی کرنا بہت ضروری ہے۔

حکومت کو بھی اس گھناؤنے عمل کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ خواتین پر تشدد کے تمام واقعات کی تحقیقات کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ریاست کو لوگوں کو انسانی حقوق کے احترام کی اہمیت اور ان کی خلاف ورزی کے نتائج سے آگاہ کرنے کے لیے عوامی بیداری کی مہم بھی شروع کرنی چاہیے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ چترال میں خواتین کو بااختیار بنانا اور انہیں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور معاشی مواقع تک رسائی فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ ایسا کرنے سے، ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ان کے پاس اپنی اور اپنے خاندانوں کی کفالت کے ذرائع ہوں، جس سے ان کے استحصال اور بدسلوکی کا خطرہ کم ہو جائے گا۔

چترال سے باہر کی شادیوں سے معصوم چترالی لڑکیوں کا قتل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے جسے فوری طور پر بند کیا جانا چاہیے۔ چترالی برادری، حکومت اور سول سوسائٹی کو برداشت، احترام اور شمولیت کے کلچر کو اپنانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ہمیں انسانی وقار کو فروغ دینا چاہیے اور انسانی زندگی کو سب سے بڑھ کر اہمیت دینی چاہیے۔ اس کے بعد ہی ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ اس طرح کے مظالم دوبارہ نہ دہرائے جائیں۔ کیا چترالی اس معاملے پر خود کو جھنجوڑنے کی زحمت گوارا کریں گے؟ یا اپنی بیٹیوں کی لاشیں ہی اٹھاتے رہیں گے؟