دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مصنوعی ذہانت کے حوالے سے کیے گئے منصوبے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ یہ منصوبہ جسے "اسٹار گیٹ پراجیکٹ" کا نام دیا گیا ہے، امریکی ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک بڑی پیش رفت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اعلان کے مطابق اس منصوبے کے تحت اگلے چار سالوں میں پانچ سو ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ تاہم ایلون مسک کے تحفظات نے اس منصوبے کی شفافیت اور حقیقت پسندی پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے میدان میں ترقی کا سلسلہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ 1956 میں ڈارٹ ماؤتھ کانفرنس کے دوران پہلی بار "مصنوعی ذہانت" کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے یہ شعبہ مختلف ادوار میں ترقی کرتا رہا۔ 1980 کی دہائی میں ماہر نظام (Expert Systems) نے صنعتی اور تجارتی میدان میں انقلاب برپا کیا اور حالیہ دہائیوں میں مشین لرننگ اور ڈیپ لرننگ جیسی ٹیکنالوجیز نے اس شعبے کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
امریکہ نے ہمیشہ ٹیکنالوجی میں عالمی قیادت کا دعویٰ کیا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں چین نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں بے مثال ترقی کی ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے اس شعبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور قومی سطح پر حکمت عملی نے امریکہ کو اس میدان میں اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے نئے اقدامات کرنے پر مجبور کیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "اسٹار گیٹ پراجیکٹ" کو امریکہ کی ٹیکنالوجی میں برتری قائم رکھنے کے لیے ایک اہم اقدام قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ منصوبہ اوپن اے آئی، سوفٹ بینک اور اوریکل کے اشتراک سے مکمل کیا جائے گا۔ ابتدائی طور پر سو ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے اس منصوبے کو چین کے خلاف ایک "ٹیکنالوجیکل جنگ" کے طور پر پیش کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ منصوبہ امریکہ کو عالمی ٹیکنالوجی لیڈر بنائے گا۔
ایلون مسک جوکہ ٹیسلا اور اسپیس ایکس جیسی کمپنیوں کے بانی ہیں، نے اس منصوبے پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "اسٹار گیٹ پراجیکٹ" کے لیے درکار فنڈنگ موجود نہیں ہے اور یہ منصوبہ حقیقت سے زیادہ ایک سیاسی بیان بازی معلوم ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کے منصوبے صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب ان کے پیچھے مضبوط مالی اور تکنیکی بنیاد ہو۔
اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹمین نے ایلون مسک کے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "تم غلط ہو، آکر دیکھ لو منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "جو امریکہ کے لیے عظیم کام ہو وہ بعض اوقات تمہاری کمپنیوں کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ہوتا، مگر امید ہے کہ صدارتی مشیر کی حیثیت سے تم امریکی مفادات کو اولیت دو گے"۔
ایلون مسک کے تحفظات کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے ماضی میں بھی مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات پر بات کی ہے اور اس حوالے سے محتاط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر اس منصوبے کی فنڈنگ اور عملدرآمد کے حوالے سے شفافیت نہیں برتی گئی تو یہ امریکہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب سیم آلٹمین اور صدر ٹرمپ کا موقف ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ لیکن اس منصوبے کی کامیابی کے لیے چند اہم نکات پر غور کرنا ضروری ہے۔ پانچ سو ارب ڈالر کی خطیر رقم کا بندوبست کیسے ہوگا؟ کیا یہ رقم نجی کمپنیوں سے آئے گی یا حکومتی بجٹ سے؟
عملدرآمد کی حکمت عملی: کیا منصوبے کے لیے تکنیکی اور ماحولیاتی چیلنجز کو مدنظر رکھا گیا ہے؟ کیا یہ منصوبہ دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر مثبت یا منفی اثر ڈالے گا؟ مصنوعی ذہانت کے استعمال کے لیے اخلاقی حدود کا تعین کیسے کیا جائے گا؟
"اسٹار گیٹ پراجیکٹ" امریکی ٹیکنالوجی کی برتری کو برقرار رکھنے کی ایک بڑی کوشش ہے، لیکن ایلون مسک کے تحفظات نے اس منصوبے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ سیم آلٹمین اور صدر ٹرمپ کے بلند دعوے اپنی جگہ، لیکن اس منصوبے کی کامیابی کے لیے عملی اقدامات اور شفافیت ناگزیر ہیں۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو یہ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا لیکن اگر یہ ناکام ہوا تو یہ امریکہ کی ٹیکنالوجیکل قیادت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔