1. ہوم
  2. کالمز
  3. رحمت عزیز خان
  4. مشاہیر کے خطوط بنام طاہر سلطانی

مشاہیر کے خطوط بنام طاہر سلطانی

شاعرِ حمد و نعت طاہر سلطانی کے نام مشاہیر کے خطوط ان کی تخلیقی، تحقیقی اور ادبی خدمات کا اعتراف ہیں۔ یہ خطوط نہ صرف ان کی شخصیت اور ادبی مقام کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ ان کی مذہبی و فکری وابستگی کو بھی واضح کرتے ہیں۔ ان خطوط کے تجزیے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طاہر سلطانی کی ادبی کاوشوں کو علمی و ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

حکیم محمد سعید اپنے خط میں لکھتے ہیں "جناب طاہر سلطانی کا نعتیہ کلام "نعت میری زندگی" پچھلے دنوں منظر عام پر آیا ہے۔ اس سے پہلے ان کا ترتیب دیا ہوا حمدیہ کلام کا انتخاب "خزینہ حمد" اور خود ان کی اپنی شعری تخلیق "مدینے کی مہک" شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی پیش کردہ یہ دونوں کتابیں ان کے مذہبی مزاج اور اللہ و رسولﷺ سے گہری وابستگی کی مظہر ہیں۔ اب ان کے نعتیہ کلام کا مجموعہ منظر عام پر آیا ہے۔ جس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ طاہر سلطانی کی حضور نبی کریم ﷺ سے عقیدت و محبت ان کی پہچان ہے۔ ان کی نعتیں ان کے دل سے نکلی ہوئی آواز ہیں لیکن وہ دل کے ہاتھوں نہ مقام رسالت اور آداب رسالت سے غافل ہوتے ہیں اور نہ مرتبہ باری تعالیٰ کو نظروں سے اوجھل ہونے دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول مقبولﷺ کے مراتب کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ اپنی اسی خوبی کی وجہ سے ان کے نعتیہ کلام کو امتیازی حیثیت حاصل ہے اور بجا طور پر امید کی جاسکتی ہے کہ اس کو علمی و ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوگی"۔

مندرجہ بالا مکتوب میں حکیم محمد سعید نے طاہر سلطانی کی نعتیہ اور حمدیہ شاعری کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق طاہر سلطانی کی نعتیہ شاعری نہ صرف ان کی قلبی عقیدت کا اظہار ہے بلکہ اس میں ادبِ رسالت اور مرتبہ باری تعالیٰ کا بھی مکمل خیال رکھا گیا ہے۔ حکم سعید کا یہ خط اس بات کا ثبوت ہے کہ طاہر سلطانی کی شاعری میں روحانی گہرائی اور فکری بالیدگی دونوں موجود ہیں۔

ممتاز سماجی کارکن عبدالستار ایدھی اپنے خط میں رقمطراز ہیں "رب کائنات کے حضور غیر مسلموں کی حمدیہ شاعری کو جناب طاہر سلطانی نے یکجا کرکے آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بڑا تحقیقی کام سر انجام دیا ہے۔ اس کے لیے وہ واقعی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس کوشش کو مقبول و منظور فرمائے"۔

عبدالستار ایدھی نے طاہر سلطانی کے تحقیقی کام کو سراہتے ہوئے ان کے مرتب کردہ غیر مسلموں کی حمدیہ شاعری کے انتخاب کو ایک بڑی خدمت قرار دیا ہے۔ ایدھی کا یہ خط اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ طاہر سلطانی نے ادبی تحقیق کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جو مختلف تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔

محمد ذاکر علی خاں اپنے خط میں لکھتے ہیں "آپ کے عنایت کردہ "ارمغانِ حمد" کے تازہ شمارے "ڈاکٹر ابوالخیر کشفی حمد و نعت نمبر" اور "ڈاکٹر شمس جیلانی حمد و نعت نمبر" موصول ہوئے۔ جو بلاشبہ آپ کی اہلِ علم سے محبت کا بیّن ثبوت ہے۔ ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی نہ صرف ہمارے ملک کا عظیم علمی سرمایہ تھے بلکہ ان کی خلوصِ دل سے لکھی ہوئی تحریروں نے بیرونی ممالک میں مقیم اسلامی ذہن رکھنے والے افراد کو متاثر کیا ہے۔ وہ بیک وقت معلّم، شاعر، ادیب، دانشور، دینی اسکالر، محقق، مترجم، نقاد غرض سبھی کچھ تھے اور اللہ رب العزت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کو نہایت مثبت انداز میں صرف کررہے تھے۔ ان کی وفات کے المناک سانحے سے دنیائے علم و ادب کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی تادیر ممکن نہیں۔

مرحوم کشفی صاحب سے علی گڑھ اور اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کا تعلق بڑا دیرینہ تھا جو تادم مرگ قائم رہا۔ وہ ایسوسی ایشن کے منعقد کردہ پروگراموں میں بحیثیت مقرر شریک ہوتے اور اپنی فاضلانہ گفتگو سے اہلِ محفل کے دل موہ لیا کرتے تھے اس کے علاوہ ماہنامہ "تہذیب" کے مشیر اعلیٰ قلمی معاون اور مستقل قاری بھی تھے۔ وہ پرچے کے حُسن کو نکھارنے کے لیے وقتاً فوقتاً اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازا کرتے تھے۔ حمدو نعت اور اسلامی موضوعات پر مضامین سپرد قلم کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، ان کی ہر تحریر اس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ وہ جو کچھ بھی لکھتے دل کی گہرائیوں سے لکھتے ان کی دلی خوہش تھی کہ مسلمان فرقہ بندیوں اور آپس کی رنجشوں کو بھلا کر پرچمِ اسلام کے سائے تلے جمع ہوجائیں اور سب کی نگاہوں کا مرکز خانۂ کعبہ اور گنبدِ خضرا ہو، اپنی ساری زندگی انہوں نے اس مقصد کے تحت بسر کی۔

یقیناََ اللہ تعالیٰ انہیں اجرِ عظیم سے نوازے گا۔ "ارمغانِ حمد" کا "ڈاکٹر ابوالخیر کشفی حمد و نعت نمبر" ایک وقیع نمبر ہے۔ جس میں مشاہر اہل قلم نے کشفی مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ یہ نمبر آپ کی کشفی صاحب سے محبت و عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ اور ان تمام لوگوں کو مزید ہمت و استقامت عطا فرمائے۔ جو دل سے اہل علم و فضل کی نہ صرف قدر کرتے ہیں بلکہ اس کا عملی ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں"۔

ذاکر علی خاں نے طاہر سلطانی کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ "ارمغانِ حمد" کی تعریف کی ہے خاص طور پر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی اور ڈاکٹر شمس جیلانی پر شائع کیے گئے خاص نمبروں کو سراہا ہے۔ ذاکر علی خان کا یہ خط طاہر سلطانی کی علمی بصیرت اور اہلِ علم سے محبت کا مظہر ہے۔ کشفی صاحب کے حوالے سے ذاکر علی خاں کے خیالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ طاہر سلطانی نے علم و ادب کی خدمت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مظفر وارثی اپنے خط میں یوں لکھتے ہیں "آپ کی مُرسلہ تینوں کتابیں مل گئیں ہیں مرتب کردہ بھی اور تصنیف بھی۔ حضور ﷺ کو جان و دل سے ماننے والے مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو صرف اور صرف اُن کے حوالے سے پہچاننے والے کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ عاشقِ رسولﷺ کا تمغہ انہی کے سینے پہ بجتا ہے یہ تمغہ آپ کے سینے پر بھی ہے آپ کے اندر بھی ایک آئینہ نہیں آئینہ خانہ ہے جس میں ہر طرف آقا ہی آقا ہیں آپ کی عقیدت آفریں نعتیں بھی آپ ﷺ بہ نفس نفیس سنتے ہوں گے جی ہاں آپﷺ خود سنتے ہوں گے۔ براہِ راست نعت حضورﷺ سنتے ہیں۔ میں حلق سے نہیں دل سے سلام کرتا ہوں تیار رہیے مسندِ کوثر کے سلطان حسانؓ و کعبؓ کی محفل میں بیٹھے ہوئے طاہر سلطانی سے بھی کہیں گے ہاں طاہر میاں سنائو ذرا ؎

"مجھ پہ یوں سرکارﷺ کی مدحت کے دروازے کھُلے"

اور حضورﷺ کی رحمت دروازے لے کر آپ کی طرف بڑھے گی اور سب دروازے جنت الفردوس کی طرف کھلتے ہوں گے۔ دروازوں کی طرح پھر آپ کی قسمت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھل جائے گی بس ایک گزارش ہے کہ مظفر وارثی کو اُس وقت نہ بھول جانا حضورﷺ سے التماش کرنا حضورﷺ یہ بھی ایک آپ کا نام لیوا ہے اس پر بھی کرم ہوجائے"۔

مظفر وارثی نے اپنے خط میں طاہر سلطانی کی نعتیہ شاعری کو نہایت جذباتی اور روحانی انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق طاہر سلطانی کی نعتیں حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دربار میں براہِ راست مقبول ہیں۔ یہ خط طاہر سلطانی کی شخصیت کی ایک اور جہت کو اجاگر کرتا ہے یعنی ان کی شاعری کی روحانی تاثیر اور ان کی رسولِ کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے بے پناہ محبت کا ثبوت ہیں۔

طاہر سلطانی کے نام مشاہیر کے یہ خطوط ان کی شخصیت اور ادبی خدمات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں جن میں سب سے نمایاں پہلو ان کی مذہبی وابستگی ہے۔ ان کے کلام میں اللہ اور رسول کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے عقیدت نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہے جیسا کہ حکیم محمد سعید کے خط سے ظاہر ہوتا ہے۔

عبدالستار ایدھی نے طاہر سلطانی کے تحقیقی کام کو بھی سراہا ہے جو ان کی علمی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

ذاکر علی خاں نے طاہر سلطانی کے ادبی کارناموں کو تسلیم کیا ہے خاص طور پر "ارمغانِ حمد" کی ادارت کے حوالے سے ان کی خدمات قابل تحسین ہیں۔

مظفر وارثی کے خط میں طاہر سلطانی کی نعتیہ شاعری کی روحانی کیفیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

مشاہیر ادب کے یہ خطوط طاہر سلطانی کی ادبی، تحقیقی اور روحانی خدمات کا اعتراف ہیں۔ ان خطوط کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طاہر سلطانی کی شاعری اور تحقیق نے مختلف علمی و ادبی حلقوں میں گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ان کی خدمات کو ایک جامع اور معیاری تخلیقی سرمایہ قرار دیا جا سکتا ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں گی۔