تاریخِ اسلام کا دامن ان عظیم شخصیات سے بھرا ہوا ہے جنہوں نے اپنی سیرت، علم، فقر، شجاعت، عشقِ الٰہی اور عشق مصطفیٰ ﷺ سے تاریخ کو جلا بخشی۔ انہی مقدس ہستیوں میں خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ کا مقام سب سے منفرد اور بلند ہے۔ پیر سید نصیرالدین نصیر کا یہ کلام اسی عقیدت و محبت کا زندہ اور تابندہ اظہار ہے جس میں حضرت علی کرم الله وجہہ کے فضائل کو شعری پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نہ صرف خلافتِ راشدہ کے چوتھے خلیفہ اور نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے عم زاد اور داماد ہیں، بلکہ علم و حکمت، شجاعت، عدل و صداقت اور زہد و تقویٰ کی علامت بھی ہیں۔ میدانِ خیبر کی فتح سے لے کر خطبہ ہائے نہج البلاغہ تک ان کا ہر عمل اور قول رہتی دنیا تک ہدایت کا مینار ہے۔
پیر سید نصیرالدین نصیر نے اسی تاریخ اور فضیلت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قصیدے میں حضرت علی کرم الله وجہہ کے روحانی اور فکری جلووں کو بیان کیا ہے۔
کلام کا آغاز ایک ایسے عالمگیر منظرنامے سے ہوتا ہے جہاں شاعر کے مطابق پوری کائنات میں حضرت علی کرم الله وجہہ ہی کا جلوہ بکھرا ہوا ہے وہ کہتے ہیں:
منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے
جس سمت دیکھتا ہوں نظارہ علی کا ہے
یہ اشعار ایک ایسے عقیدے کا اظہار کرتے ہیں جس میں حضرت علی کرم الله وجہہ کا فیض بطور ایک عظیم انسان کائنات کی ہر جہت میں رواں دواں دکھائی دیتا ہے۔
مرحب کی شکست کا تذکرہ کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے:
مرحب دو نیم ہے سر خیبر پڑا ہوا
اٹھنے کا اب نہیں کہ یہ مارا علی کا ہے
یہاں شاعر خیبر کے میدان میں حضرت علی کرم الله وجہہ کی عظیم الشان فتح کو فخریہ انداز میں بیان کر رہے ہیں، جو اسلامی تاریخ کا سنہری باب ہے۔ نصیر کے کلام کا ایک اور اہم پہلو تصوف کی اصطلاحات کا استعمال ہے:
ہم فقر مست چاہنے والے علی کے ہیں
دل پر ہمارے صرف اجارہ علی کا ہے
یہ شعر حضرت علی کرم الله وجہہ کی فقیرانہ عظمت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو صوفیانہ فلسفے میں ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔ حضرت علی کرم الله وجہہ کو "باب العلم" اور "امیر الفقراء" کہا جاتا ہے اور پیر نصیر کا یہ اقرار کہ "دل پر اجارہ علی کا ہے" عشقِ علی کی ایک بھرپور کیفیت کا عکاس دکھائی دیتا ہے۔
شاعر اہل بیت پیر نصیر الدین نصیر عقیدت کے باب میں مداخلت کرنے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے:
تم دخل دے رہے ہو عقیدت کے باب میں
دیکھو معاملہ یہ ہمارا علی کا ہے
اس شعر میں ایک خاص انداز کی غیرتِ ایمانی اور عقیدت کا ولولہ محسوس ہوتا ہے، جو پیر نصیر کی اپنے مرشد حقیقی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے والہانہ محبت کا اظہار ہے۔
اسی عقیدت کو مزید وسعت دیتے ہوئے شاعر سرزمینِ پاکستان کی خوش نصیبی کا ذکر کرتا ہے:
اے ارض پاک تجھ کو مبارک کہ تیرے پاس
پرچم نبیﷺ کا چاند ستارہ علی کا ہے
یہاں شاعر حب الوطنی اور عشقِ رسالت دونوں کی حسین آمیزش دکھاتا ہوا نظر آتا ہے، جو پیر نصیر کے شعری کمال کی دلیل ہے۔
آخری اشعار میں شاعر حضرت امام مہدی کے ظہور کی نوید سناتے ہوئے پھر سے حضرت علیؑ کے فیضان کو مرکز بنا دیتا ہے:
آثار پڑھ کے مہدی دوراں کے یوں لگا
جیسے ظہور وہ بھی دوبارہ علی کا ہے
گویا نصیر کے نزدیک ہر خیر، ہر ظہور، ہر فلاح حضرت علی کرم الله وجہہ کے نام اور نسبت سے ہے۔
پیر نصیرالدین نصیر کا یہ کلام عقیدت، محبت، روحانیت اور معرفت کا ایک نادر نمونہ ہے۔ زبان و بیان میں سادگی کے باوجود تاثیر کا وہ درجہ موجود ہے جو قاری کے دل میں اتر کر اسے عشقِ علی میں سرشار کر دیتا ہے۔
بحر اور قافیہ کی ترتیب سادہ مگر دلکش ہے اور معانی میں گہرائی اور وسعت موجود ہے۔ پیر نصیر نے بغیر کسی تصنع یا مبالغہ کے حضرت علی کرم الله وجہہ کی شان کو بیان کیا ہے۔
کلام میں تصوف کی جھلک بھی نمایاں ہے اور عقیدت و معرفت کی لطافت بھی، جو انہیں اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔
یہ قصیدہ پیر نصیرالدین نصیر کے عشقِ علی کا ایک بے مثال اور تابندہ نمونہ ہے۔ یہ کلام نہ صرف ایک عقیدتی اثاثہ ہے بلکہ اردو ادب میں ایک فکری اور روحانی خزانے کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت اہلِ ایمان کے لیے سرمایۂ افتخار ہے اور پیر نصیر نے اسے شعری قالب میں ڈھال کر دلوں میں ایک تازہ جذبہ بیدار کر دیا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے پیر نصیر الدین نصیر کا عشق علی سے بھرپور نظم پیش خدمت ہے۔
منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے
جس سمت دیکھتا ہوں نظارہ علی کا ہے
مرحب دو نیم ہے سر خیبر پڑا ہوا
اٹھنے کا اب نہیں کہ یہ مارا علی کا ہے
کُل کا جمال جزو کے چہرے سے ہے عیاں
گھوڑے پہ ھیں حسین نظارہ علی کا ہے
اصحابی کالنجوم کا ارشاد بھی بجا
سب سے مگر بلند ستارا علی کا ہے
ہم فقر مست چاہنے والے علی کے ہیں
دل پر ہمارے صرف اجارا علی کا ہےِ
اہلِ ہوس کی لقمہ تر پر رہی نظر
نان جویں پہ صرف گزارا علی کا ہے
تم دخل دے رہے ہو عقیدت کے باب میں
دیکھو معاملہ یہ ہمارا علی کا ہے
اے ارض پاک تجھ کو مبارک کہ تیرے پاس
پرچم نبیﷺ کا چاند ستارا علی کا ہے
آثار پڑھ کے مہدی دوراں کے یوں لگا
جیسے ظہور وہ بھی دوبارہ علی کا ہے
تو کیا ہے اور کیا ہے تیرے علم کی بساط
تجھ پر کرم نصیر یہ سارا علی کا ہے