1. ہوم/
  2. غزل/
  3. سحر ملک/
  4. ہوا ہے اس قدر ناپید پیار دنیا سے

ہوا ہے اس قدر ناپید پیار دنیا سے

ہوا ہے اس قدر ناپید پیار دنیا سے
کہ اٹھ گیا ہے سکون و قرار دنیا سے

تمام عمر کا حاصل بنا یہی فقرہ
صورتِ موت ہے واحد فرار دنیا سے

کل اک شہید کا چہرہ نظر سے گزرا تھا
لکھا تھا موت ہے بہتر، ہزار دنیا سے

کوئی بتائے مجھے کس طرح سے ختم کروں
میں نفرتوں کا بھیانک غبار دنیا سے

جو ایک رات تجھے مانگنے میں گزری تھی
الگ تھا اس کا سرور و خمار، دنیا سے

تجھ سے بچھڑے ہوئے دن رات گنوں تو کیسے
اس کو درکار الگ ہے، شمار دنیا سے

تیرے وصال کی امید جب سے ٹوٹی ہے
میں ہو گئی ہوں مکمل بے زار دنیا سے