1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. سہیل وڑائچ/
  4. جادو نگری سے

جادو نگری سے

یہ دنیائے طلسمات ہے یہاں مادی فارمولے اور طبیعات کے قاعدے قانون نہیں چلتے اور نہ ہی یہاں دلائل وبراہین کام آتے ہیں۔ یہاں پھونک، دم اور دھاگے سے دنیا کے مشکل ترین کام چٹکی بجانے میں ہوجاتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی راجہ اور رانی سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے۔ راجہ کے حسن ا ور وجاہت پر خواتین تو خواتین پریاں تک فدا ہیں اور رانی کے روحانی کمالات پر دنیا انگشت بدنداں ہے۔ بنی نالہ کے اردگرد پھرنے والے پرندے دراصل وہ نیک روحیں ہیں جو روپ بدل کر اس روحانی ہالے میں پناہ گزین ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے کوے کائیں کائیں نہیں کرتے موسیقیت بھرے گانے گاتے ہیں، کبوتر سبحان اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے اڑتے ہیں ا ور چڑیا چوں چوں کی بجائے ہو ہو کرتی ہیں۔ سبز طوطے میاں مٹھو نہیں بلکہ عمی عمی کہہ کر چوری کھاتے ہیں۔

اسی جنت نشان دنیا میں صرف انسان نہیں جن بھی رہتے ہیں۔ آسان زبان میں انہیں موکل کہا جاتا ہے، طلسماتی دنیا کی خبر آہستہ آہستہ چار سو پھیل رہی ہے اور اس کی خوشبو کوچے کوچے میں جارہی ہے۔ جادو نگری کے فضائل سیال نگر بھی پہنچے تو ڈاکٹر جنت کو بھی خواہش ہوئی کہ وہ بھی اس طلسماتی دنیا میں داخلہ کا ٹکٹ حاصل کرے۔ اسے بتایا گیا کہ اس روحانی اور جادوئی ہالے میں شامل ہونے کے لئے عمل اور عامل دونوں کی ضرورت ہوگی، چنانچہ سابقہ وزیر ڈاکٹر جنت نے عامل کا دروازہ جا کھٹکھٹایا، عامل بھی طاقتور اور زور آور تھا اس نے خاتون ڈاکٹر کو تگڑا عمل بتایا۔ خاتون دس بارہ افراد کا قافلہ لے کر بنی نالہ پہنچی اور عمل شروع کردیا۔ کہتے ہیں عمل سے ا س قدر طاقتور لہریں پیدا ہوئیں کہ اس علاقے میں ارتعاش پیدا ہوگیا۔ علاقے کی رانی کوئی بےخبر تھوڑی بیٹھی تھی، طیور نے بھاگ بھاگ کر خبر دی کہ ڈاکٹر جنت آف سیال نگر لائو لشکر کے ساتھ اس طلسماتی دنیا کو فتح کرنا چاہتی ہے، تب رانی کے خون نے جوش مارا اور موکلوں کی فوج نے ڈاکٹر جنت کو پکڑ کر وہ گھمایا کہ کئی دن تک اسے مارے خوف کے کپکپیاں آتی رہیں۔ وہ وہاں سے بھاگی اور سیال نگر آکر دم لیا۔ ڈاکٹر جنت کی جان میں جان اس وقت آئی جب رانی نے اسے معاف کردیا، مگر اس شرط پر کر وہ بتائے اسے یہ عمل کس نے سکھایا تھا۔ ان دنوں بنی نالہ میں راوی چین لکھ رہا ہے، ڈاکٹر جنت وہاں جگہ تو نہیں بنا سکی مگر اسے جادو کی طاقت کا اندازہ ہوچکا ہے اور وہ اس طلسماتی دنیا کی پہلے سے بھی زیادہ مطیع ہو چکی ہے۔

کوئی مانے نہ مانے اس بار جم کر بارشیں ہوئی ہیں، گندم کا دانہ موٹا ہوچکا ہے، ہر طرف اناج کی لہریں بہریں ہونگی، خوشحالی کے ڈھول پر ڈنکا پڑنے والاہے۔ کثیر المنزلہ عمارتیں بننے لگی ہیں، بس چھومنتر ہوگا اور آپ دیکھیں گے کہ پلک جھپکتے غریبوں کی بستیاں اور جھونپڑیاں ختم ہوجائیں گے ا ور یہ سب غریب عوام صاف ستھرے فلیٹس میں منتقل ہوجائیں گے۔ دعا کریں کہ جادو نگری کے راجہ اور رانی کی نظر صرف اسی طرف متوجہ رہے اگر ان کی نظر بھٹک گئی تو پھر قوم بھی کئی سال تک بھٹکے گی۔ جادونگری کے راجہ بہت ہی سادہ ہیں انہیں جو کہانی سب سے پہلے سنائے وہ اس پر یقین کرلیتے ہیں، دوسرا اگر آکر کوئی اور کہانی سنائے تو وہ اس پر بھی یقین کرلیتے ہیں، سو جو زیادہ قریب رہتا ہے وہ زیادہ فائدے میں رہتا ہے۔ راجہ کے کانوں پر اس کے قریبی ساتھیوں کا قبضہ ہے ا بھی چند ہفتے پہلے طے ہوگیا کہ ایم این اے بریگیڈئر اعجاز شاہ کو نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بنادیا جائے مگر پھر علم نہیں کیا ہوا کہ ایک سیکورٹی ادارے نے مخالفت کردی اور کہا انہیں صرف اندرونی سیکورٹی کا انچارج بنادیا جائے مگر راجہ نے فی الحال تقرری ہی روک دی۔ اب بریگیڈئر اعجاز شاہ کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کدھر جا کر فریاد کریں۔

دنیائے طلسمات کا ہر رنگ نرالا ہے، فیاض الحسن چوہان کو فارغ کردیا گیا مگر باقی درجنوں معاملات رکے پڑے ہیں۔ فواد جہلمی اپنے تحفظات کا برملا اظہار کرچکے مگر اس معاملے پر ابھی تک میٹنگ نہیں ہوسکی۔ وزیر اعظم آفس کی ڈولی کے چار کہاروں نے سینٹر فیصل جاوید کو وزیر مملکت برائے اطلاعات بنانے کی تجویز دی مگر یہ ہونہ سکا پھر نظریں ڈاکٹر بابر اعوان کی طرف ا ٹھیں وہ ابھی کمر کس رہے تھے کہ عدلیہ نے اگلے چھ ماہ کے لئے ان کے مقصد کو ان سے دور کردیا۔ اب دیکھیں قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے۔ فواد جہلمی کے لئے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی یا انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سے ایک میں نیا دفتر سجایا جارہا ہے دیکھیں وہ کس دفتر میں بھیجے جاتے ہیں یا پھر وہ صرف ایوانوں میں ہی تقاریر پر محدود رہیں گے؟بنی نالہ کا طلسماتی ہالہ نہ صرف اندرون ملک اثر ڈال رہا ہے بلکہ اس کے اثرات بیرونی ممالک پر بھی پڑرہے ہیں، بنگال کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، کہا جارہا ہے کہ طلسمات کی مقامی دنیا اور بنگال کے ساحروں کے رابطے بہت مضبوط ہیں، دونوں ملکوں کے ساحر اپنے اپنے تجربات کو شیئر کرکے معاملات کو بہتر سے بہتر طور پر چلا رہے ہیں۔ ان مشترکہ تجربات کے بعد سے سیاست اور معیشت پر راجہ اور رانی کی گرفت اور بھی مضبوط ہونے لگی ہے۔ اور تو اور حالات یہ ہوگئے ہیں جو کوئی بھی بنی نالہ جاتا ہے اس پر وہ سحر آزمایا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے راجہ رانی کا مطیع ہوجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس جادو کا توڑ کرنے کے لئے بھی کوئی خصوصی سیل بنایا جائے جو اس جدید دنیا میں جادو جیسے پرانے اور پراسرار عمل کا کوئی توڑ پیش کرسکے۔

پڑوسی ملک کا راجہ بھی نجومیوں، ساحروں اور زائچہ نویسوں کے نرغے میں ہے، طلسماتی دنیا کے راجہ کافی الحال سو مناتی دنیا کے راجہ سے زائچہ کافی بہتر جارہا ہے مودی کی اصل کمزوری اس کی رانی نہ ہونا ہے۔ ادھر دو ساحر ہیں یعنی راجہ اور رانی، اسی لئے اکیلے مودی کی ایک نہیں چل رہی اس کے جہاز بھی گررہے ہیں اور آپریشن کا مذاق بھی بن رہا ہے۔ مقامی جادو جیت رہا ہے بھارت کا سحر ہار رہا ہے۔ جادو نگری کرداروں سے بھری پڑی ہے یہاں تو یہ افواہ بھی گرم ہے کہ وہ جو جیل میں ہے اور وہ جو بے نامی اکائونٹس میں پریشان ہے دونوں ہی سحر کی نظر کا شکار ہوئے ہیں۔ خادم اعلیٰ نے البتہ اس جادو کا توڑ کرلیا ہے اسی لئے وہ ضمانت پر باہر آگئے ہیں، اسی دنیا سے یہ خبر بھی آئی ہے کہ ان دنوں ایک انڈسٹری زوروں پر ہے اور وہ انڈسٹری آٹے کے پتلے بنانے کی ہے۔ آٹے کے یہ پتلے جادو کے لئے استعمال ہوتے ہیں، آٹے کے پتلے پر اگر تیر مارا جائے تو وہ اس شکل سے ملتے جلتے شخص پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پتلے کے ماتھے پر تیر لگے تو درد ہم شکل شخص کو ہوتاہے، جیل والا لیڈر اور بےنامی اکائونٹس والا لیڈر، دونوں کو اب چاہئے کہ کوئی ایسا جادو گر ڈھونڈیں جو جادو کے توڑ کا ماہر ہو، ان لیڈروں کا درد تبھی دور ہوگا وگرنہ راجہ اسی طرح جادو نگری سے حکومت کرتا رہے گا۔