1. ہوم
  2. اسلامک
  3. سید قنبر علی رضوی
  4. امام محمّد تقی الجواد علیہ السلام

امام محمّد تقی الجواد علیہ السلام

امام محمّد تقی الجواد اہل تشیع اثنا عشری کے عقائد کے مطابق بعد از رسول خدا سلسلہ امامت کے نویں تاجدار ہیں۔ آپ کی ولادت 10 رجب 195 ہجری بمطابق 12 اپریل 811 عیسوی مدینہ منورہ میں ہوئی آپ کے والد امام علی رضاؑ اور والدہ کچھ حوالوں سے حبیبہ خاتون اور کچھ حوالوں سے خیزران یا سبیکہ خاتون جن کا شجرہ ام المومنین ماریہ القبطیہ سے جا ملتا ہے آپ کی کنیت ابا جعفر الثانی تھی کیونکہ امام باقرؑ کی کنیت بھی ابا جعفر تھی اس لئے آپ کے ساتھ الثانی کا اضافہ کیا گیا۔ آپ کو اپنے والد کے ساتھ زندگی کے فقط چار برس میّسر آئے۔ مگر اس عرصے میں امام علی رضاؑ آنے والے حالات کے پیش نظر اپنے خاص اصحاب کو اپنے اس فرزند کی جانشینی کے حوالے سے آگاہ کر گئے تھے۔

آپ کی امامت کے آغاز کا زمانہ شورشوں سے پر تھا مصر اور بلاد افریقہ میں فاطمہ خلافت کا آغاز ہوگیا تھا اور یہ خلافت عرب خطے میں پر تول رہی تھی جب کہ عباسی اسٹیبلشمنٹ ماموں الرشید کے ساتھ مل کر یہ طے کر چکی تھی کہ سرکاری امامت کے ترویرج کی جائے شیعہ لوگوں میں امامت کے حوالے سے مزید تقسیم کی جائے اور حقیقی امامت کو عوام کے سامنے سیاست زدہ پیش کرکے بلا آخر راستے سے ہٹایا جائے اسی تناظر میں پورے عرب و عجم میں بہت سے لوگ امام بن گئے دارالحکومت طوس کا شہر مرو ہوا جہاں امام رضا کو بلوایا گیا اور پھر زہر دیا گیا۔

امام رضاؑ کی شہادت کو چھپانے کی بہت کوشش ہوئی مگر اس ناکامی کے بعد سرکاری طور پر امامت کے جھوٹے دعوے داروں کی سرپرستی کی گئی۔ امام علی رضاؑ کی شہادت کے وقت امام جواد 9 برس کے تھے لہٰذا یہ پروپیگنڈا ہوا کہ امام کمسن نہیں ہو سکتا لہٰذا اس وجہ سے لوگ گمراہی کا شکار ہو کر عبدللہ بن امام موسیٰ کاظم کو امام سمجھنے لگے کچھ لوگ فرقہ واقفیہ سے منسلک ہو گئے۔ اسماعیلی فرقہ کے تبلیغ بھی زور و شور سے ہوئی اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے شروع کی گئی امامت بھی اپنی دھول اڑا رہی تھی تا کہ حق اس میں چھپ جائے۔

یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے متولی اور کلید بردار نے آپ سے مناظرہ کیا جو کئی روز جاری رہا جس کے بعد بھی اس کی ایک شرط ہی کہ ہجر اسود آپکی امامت کی گواہی دے اس پر کچھ روایات ہیں کہ حجر اسود نے بلند ہو کر اپکا طواف کیا اور کچھ روایات کے مطابق آپ کو سلام کیا۔ اس معجزہ کے بعد عرب و عجم میں آپکی امامت کا سکہ قائم ہوگیا۔ کیونکہ یہ پروردگار کا وعدہ ہے جب لوگ اپنی چال چل لیتے ہیں تب پروردگار اپنی چال چلتا ہے۔ اس کے بعد آپ سے منسوب بہت سے مناظرے ہیں جن میں آپ نے سائنس فقہ حدیث تفسیر اور دیگر علوم پر اپنی مدلل گفتگو سے اسلام کا بول بالا کیا اور لوگوں کو حقیقی اسلام سے روشناس کروایا۔

آپ نے کمسنی میں ہی وقت کا امام ہونے کے ناتے اپنی جد امام جعفر صادقؑ کے مدرسے کا احیا کیا۔ آپ کے ان اقدامات نے جہاں حکومت کے مکر کا پردہ چاک ہوا وہیں مامون الرشید جو امام رضا کے قتل پر سیاسی دباؤ کا شکار تھا کو مجبور کیا کہ اس نے عبدللہ بن موسیٰ کاظم کو حج کا امیر مقرر کیا امام تقی کے مدرسے کو بند کروا کر خطبہ دینے کی پابندی لگاتے ہوے آپ کا سماجی بائیکاٹ کیا مگر لگاتار چار برس جب حج کے موقع پر امیر حج عبدللہ بن موسیٰ کاظم لوگوں کے سوالات اور دوسرے ادیان کے مبلغین کا سامنا کرنے میں ناکام رہے تو مامون الرشید مجبور ہوگیا کہ اس بار اس نے امام سے اپنی بیٹی کے عقد کی خواہش کے اظہار کیا اور اپنی بیٹی ام الفضل آپ کے نکاح میں دے کر آپکو بغداد طلب کرکے ولی عہد نامزد کیا اور آپ سے عوام طلبہ، خواص کے ملنے پر پابندی لگا دی یہاں تک کہ امام کی نقل و حرکت کے دوران بھی جاسوسوں کا پہرا رہتا یہی وجہ ہے اس شدید نادیدہ نظر بندی کی وجہ سے آپ نے منسوب احادیث کی تعداد صرف تین سو کے لگ بھگ ہے۔

آپ کی امامت کا سترہ سالہ دور کا بیشتر عرصہ مامون الرشید کے دور میں گزرا اس نے ہر چند امام کو ہٹانے کی بھرپور کوشش کی مگر امام علی رضا کے قتل کے بعد یہ بہت خائف تھا کہ یہ ایک اور قتل اس کے اقتدار کے لئے بھاری نہ ہو مگر اس کی ہلاکت کے بعد خلیفہ المعتصم بالله ہوا جو آپ سے شدید بغض رکھتا تھا ام الفضل نے اس کے کہنے پر آپ کو زہر ہلاہل دیا جس سے آپ کی شہادت ہوئی وقت شہادت آپ کی عمر صرف پچیس برس تھی بعد از رسول خدا آپ سب سے کم سن امام شہید ہیں جیسے شہید کربلا ہمشکل پیغمبر شہزادہ علی اکبرؑ نوجوان شہید ہیں جن کے واسطے سے اولاد نرینہ و جوانوں کی زندگی کی دعا کرنا منسوب ہے امام تقی کی نسبت سے روزگار کی دعا کرنا احادیث معصوم میں وارد ہوا ہے آپ کو جواد اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آپ نہایت کمسنی میں ہی بے انتہا سخی تھے امام رضاؑ کی مدینہ سے روانگی کے بعد اپنے والد اور سلسلہ امامت کی نیابت میں محتاجوں ضرورت مندوں کی لئے آپ کا در کھلا رہتا تھا آپ کا دستر خوان بفیض دستر خوان امام حسنؑ پورے عرب میں مشھور تھا۔

آنے والے وقت کے پیش نظر آپ سب سے پہلےنے مختلف علاقوں میں اپنے نائبین کا تقرر کیا جو لوگوں سے خمس وصول کرتے تھے اور بحکم امام اس کی تقسیم کے ذمہ دار تھے اور آپ تک خطوط پہنچاتے اور جوابات لوگوں تک۔ خلیفہ المعتصم بالله کے دربار میں ایک چور پیش ہوا جس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا فیصلہ ہوا درباری اماموں کی رائے میں کہ اس کے ہاتھ کو کاٹا جائے جس پر چور نے پوچھا میرا ہاتھ کہاں سے کاٹو گے جس پر ایک رائے یہ پیش ہوئی کہ کلائی سے کسی نے کہا کوھنی تک کسی نے کہا عرب زبان میں ہاتھ بازو تک کا کہا جاتا ہے لہٰذا بازو تک کٹے گا۔

اس پر خلیفہ نے کہا یا ابن رسول الله آپ بتائیے امام نے کہا صرف چار انگلیاں کاٹی جائینگی وجہ پوچھنے پر امام نے کہا کہ الله کا حکم ہے کہ جتنی بھی سجدہ گاہیں ہیں وہ الله کے لئے ہیں اور رسول الله کا حکم ہے کہ جب بھی سجدہ میں جاو تو سات مقامات کا زمین سے لگنا ضروری ہے اگر یہ شخص توبہ کرلے اور نماز پڑھنا چاہے تو الله نے کہا کہ سجدہ کی جگہ اس کے لئے تو ہتھیلی کی بنا نماز باطل ہے لہٰذا اس کے انگھوٹے اور ہتھیلی کو چھوڑ کر چار انگلیاں کاٹی جائیں۔

آپ کی تدفین کاظمین میں آپ کے جد امام موسیٰ کاظمؑ کے پہلو میں ہوئی آپ کا روضہ مرجع خلائق ہے اور رہتی دنیا تھا ہدایت کا نہ بھجنے والا چراغ۔ آپ کے مشہور اصحاب و طالب علموں میں عبد العظیم الحسنی، ابراہیم ال ہاشم القمی، علی بن محزیار، احمد بن ابی نصر، زکریا بن آدم، محمّد بن اسماعیل، الحسن بن سید الاھوازی، احمد بن محمّد البرقی شامل ہیں۔

اَلسَّلاَمُ عَلَيُكَ يَا وَلِيَّ ٱللَّهِ
اَلسَّلاَمُ عَلَيُكَ يَا حُجَّةَ ٱللَّهِ

اَلسَّلاَمُ عَلَيُكَ يَا نُورَ ٱللَّهِ فِي ظُلُمَاتِ ٱلارُضِ
اَلسَّلاَمُ عَلَيُكَ يَا بُنَ رَسُولِ ٱللَّهِ

اَلسَّلاَمُ عَلَيُكَ يَا ابَا جَعُفَرٍ
مُحَمَّدُ بُنَ عَلِيٍّ ٱلُبَرُّ ٱلتَّقِيُّ

ٱلإِمَامُ ٱلُوَفِيُّ
اَلسَّلاَمُ عَلَيُكَ ايُّهَا ٱلرَّضِيُّ ٱلزَّكِيُّ

اَلسَّلاَمُ عَلَيُكَ يَا نَجِيَّ ٱللَّهِ
اَلسَّلاَمُ عَلَيُكَ يَا سَفِيرَ ٱللَّهِ