1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. دعا

دعا

انسان اس دنیا میں بے وارث ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ جو کہے کہ میرا کوئی وارث نہیں اس کا وہ اللہ وارث ہے۔ وہ ایسا وارث ہے جو ہر امید و آسرا ٹوٹ جانے کے باوجود بھی قائم رہتا ہے۔ انسان کے آخری سہارے اور امید کا نام اللہ ہے۔ انسان کا تعلق جتنا مضبوط اپنے وارث اور خالق سے ہوتا جائے گا اتنا ہی وہ روحانی طور پہ بلند مراتب حاصل کرتا جائے گا۔

انسان اور اللہ کے ایک تعلق کا نام "دُعا" ہے۔ دعا اس تعلق کے اظہار کا نام ہے جو عابد و معبود کے درمیان ہوتا ہے۔ دعا حضرت انسان کے لبوں پہ تب سے ہے جب اول البشر جنابِ آدم علیہ السلام کا وجودِ مبارک تھا۔ اللہ کریم کے بھیجے ہوئے ہر نمائندہ پیامبر نے اپنے اور خالق کے تعلق کا اظہار دعا کے ذریعے کیا۔ اللہ کریم کے بھیجے ہر راہبر نے اپنے ماننے والوں کو دعا کا قرینہ اور سلیقہ تعلیم کیا، کہ بندہ اپنے خالق سے جڑا رہے۔ اور جب بھی زندگی میں تنگی، مشکل وقت یا آزمائش کا دور دیکھے تو ناامید نہ ہو بلکہ تعلیم کردہ دعا کے ذریعے اپنے حاجت روا سے اپنی حاجت روائی کرواے۔

ہر راہبر کی دعا کے الفاظ بیش قیمت ہیں۔ دعا جتنی خوبصورت ہوگی، تعلق بھی اتنا ہی حسین ہوگا۔ ہمارے رسولِ معظم جناب محمد مصطفی ﷺ اور اللہ کریم سے مضبوط تعلق کس کا ہوگا؟ کسی کا بھی نہیں۔ سرکار ﷺ نے بھی اپنی ہر حاجت روائی کی دعا اپنی امت کو تعلیم فرمائی اور کوئی گوشہ ایسا رہ نہیں گیا کہ جس باب میں انسان خالی دامن رہ گیا ہو۔

انکے بعد سرتاجِ ولایت سرکار علی علیہ السلام نے دعائیں تعلیم فرمائیں۔ جن میں مولا کریم نے اپنے اور معبود کے خوبصورت تعلق کا اظہار فرمایا۔ انکی دعاوں اور جنابِ محمد ﷺ کی دعاوں کی ادا ایک جیسی ہے۔ ہو بھی کیوں نہ کہ مولا کریم دروازہِ شہرِ علمِ جنابِ محمد مصطفی ﷺ ہیں۔

اسی سلسلہ میں ایک نامِ نامی جنابِ امام زین العابدین علیہ السلام کا آتا ہے کہ جن کے وجودِ بابرکات نے دعا کو بامِ عروج پہ پہنچاتے ہوئے ایک اور معراج کروائی کہ علمِ رسول ﷺ کی ہی ایک کڑی ہے۔ امامِ زین العابدین علیہ السلام نے زندگی میں شکر ادا کرنا چاہا، تو دعا کی، نعمت مانگی تو دعا کی، نعمت کے ملنے پہ دعا کی، آزمائش میں مبتلا ہوئے تو دعا کی۔ الغرض امام زین العابدین علیہ السلام نے عبادت اور دعا کے زریعے اپنے اور معبود کے تعلق کا اظہار کیا۔ یہ اس تعلق اور دعا کی معراج ہی ہے کہ اصل نام "علی ابن الحسین" علیہ السلام ہے مگر زمانے میں انہیں "زین العابدین" علیہ السلام کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مولا کریم کی دعاوں کا مجموعہ "صحیفہ سجادیہ" کے نام سے شائع ہوا جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

مولا کریم کی ایک دعا "دعائے ابوحمزہ ثمالی" کے نام سے مشہور ہے۔ کیا خوبصورت دعا ہے، کہ جس دعا میں تعلق کا جو اظہار کیا گیا ہے وہ ان ہی کاخاصی ہے۔ دعا کے ابتدائی حصے میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں۔۔۔

"حمد ہے اس اللہ کیلئے جس کے غیر سے میں امید نہیں رکھتا اور اگر امید رکھوں بھی تو وہ میری امید پوری نہ کریگا، حمد ہے اس اللہ کیلئے جس نے اپنی سپردگی میں لے کر مجھے عزت دی اور مجھے لوگوں کے سپرد نہ کیا کہ مجھے ذلیل کرتے، حمد ہے اس اللہ کے لئے جو مجھ سے محبت کرتا ہے اگرچہ وہ مجھ سے بے نیاز ہے، حمد ہے اس اللہ کیلئے جو مجھ سے اتنی نرمی کرتا ہے جیسے میں نے کوئی گناہ نہ کیا ہو پس میرا رب میرے نزدیک ہر شئے سے زیادہ قابل تعریف ہے اور وہ میری حمد کا زیادہ حقدار ہے۔"

دعا کے اگلے حصے میں مولا کریم فرماتے ہیں۔۔۔

"میں اپنی طلب لیکر تیری بارگاہ میں آیا اور اپنی حاجت کے ساتھ تیری طرف متوجہ ہوا ہوں، میری فریاد تیرے حضور میں ہے میری دعا کا وسیلہ تیری ہی ذات ہے جبکہ میں اس کا حقدار نہیں کہ تو میری سنے اور نہ اس قابل ہوں کہ تو مجھے معاف کرے البتہ مجھے تیرے کرم پر بھروسہ اور تیرے سچے وعدے پر اعتماد ہے تیری توحید پر ایمان میری پکی سچی پناہ ہے اور تیرے بارے میں مجھے اپنی معرفت پر یقین ہے تیرے سوا میرا کوئی پالنے والا نہیں اور تو ہی صرف یگانہ ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔"

سچ کہا گیا کہ کلامِ امام، امام الکلام ہوتا ہے۔ ہم شکر گزار ہیں ان ہادیان برحق کے، کہ جن کے الفاظ نے ہم جیسوں کو اللہ کریم سے مانگنے اور گفتگو کا قرینہ اور سلیقہ تعلیم کیا۔ ورنہ ہم بھی ظلمتِ زمانہ کی نظر ہوجاتے۔ اپنے مالک و معبود سے دعا کیجئے کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے مانگو میں عطا کروں گا۔ اللہ کریم کے علاوہ کوئی عطا کرنے والا نہیں۔ آپ سب سے گزارش کہ مولا کریم کی اس دعا کو ایک مرتبہ ضرور تلاوت فرمائیں کہ انسان کو وہ فہم مل سے کو اللہ کریم کتنے کرم کرنے والے ہیں۔ وہ اپنے بندوں سے بے انتہا پیار کرنے والے ہیں۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔