1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. کامیابی

کامیابی

سات حروف کا مرکب ، جس کا متلاشی اک زمانہ ہے۔ ہر کوئی اسی چکر میں ہے کہ کامیابی اُسی کا مقدر ٹہرے۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ کامیابی ہے کیا؟ اگر لغت میں دیکھا جائے کہ کامیابی ہے کیا تو لغت اس کی تعریف کچھ یوں کرتی ہے کہ کسی عزم یا مقصد کے حصول کا نام کامیابی ہے۔ دوسری لغت نے کامیابی کی تعریف یوں کی کہ شہرت، دولت سماجی حیثیت کے حصول کا نام کامیابی ہے۔ تیسری لغت نے کامیابی کو کچھ یوں بیان کیا کہ کامیابی کسی شخص یا شئے کے اپنے عزائم یا خواہشات کے حصول یا شہرت کا حصول، دولت کا حصول ہے۔ الغرض آپ جیسے جیسے مزید لغات کو دیکھتے چلے جائیں معانی اور مفاہیم بدلتے چلے جائیں گے۔

درج بالا لغات کی کی تشریحات کو اگر بغور دیکھا جائے تو چند چیزیں آپ کو یکساں نظر آئیں گی خواہشات، دولت، سماجی مقام۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان تین چیزوں کا حصول ہی کامیابی ہے؟ میرے نزدیک شاید نہیں۔ ہم نے اپنے معاشرے میں دیکھا کہ ایک غریب آدمی نے اتنی محنت کی، کہ جسے دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی تھی وہ مملکت خدا داد پاکستان کے چند امیر ترین آدمیوں میں شمار ہونے لگا، مگر دلی سکون ناپید، نیند کے حصول کے لئے ادویات کا استعمال، اولاد نافرمان، خوشامدیوں کا حجوم الغرض ایک مقام ایسا بھی آتا ہے جب ایسا بندہ کہتا ہے کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں یہ سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں جنگلوں میں نکل جاوں۔ کیا ایسا شخص کامیاب شخص ہو سکتا ہے؟

تو پھر کامیابی ہے کیا؟ میرے نزدیک کامیابی اور ناکامی انسان کے اندر ہے۔ دولت کی فراوانی کے بغیر اگر دو وقت کا کھانا مل جائے، دل مطمئن ہو، تو کامیابی ہے۔ اطمنان کا نام کامیابی ہے۔ یہ حضرت انسان پہ منحصر ہے کہ وہ کس چیز کو کامیابی سمجھتا ہے۔ کسی بندے کے نزدیک جنّت کا حصول ، جبکہ دوسرے کے نزدیک رضائے الٰہی کامیابی ہے۔ کامیابی وہ ہے جو عارضی نہ ہو بلکہ دائمی ہو۔ کامیابی مادّی بھی ہوتی ہے اور روحانی بھی۔ مادّی کامیابی عارضی جبکہ روحانی کامیابی ابدی۔ شاید اسی لئے مادّی زندگی محدود اور روحانی زندگی لامحدود۔ اگر ہم ساری زندگی گزار لیں اور وقت آخر ہمارا دل مطمئن ہو اور گواہی دے کہ میں نے اس عارضی دنیا میں آنے کا حق ادا کردیا ہے تو بندہ کامیاب ہے بصورت دیگر خود کو ناکام تصور کرے۔

اگر ہم بہ نظر غور دنیا کے امیر ترین افراد کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں تمام کی زندگی میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی کہ انکا بچپن کسمپرسی میں گزرا، بچپن اور جوانی سخت محنت میں گزر گئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے پاس بے تحاشہ دولت آگئی۔ مگر اس دولت کے حصول کے بعد بھی انہوں نے خود کو شاد نہیں پایا، انہوں نے اپنی دولت کا تقریبا سارا حصہ فلاحی کاموں کے لئے وقف کردیا۔ ان کے نام کردیا جن کا حق بنتا تھا۔ ان کے اس عمل نے انہیں شاد کیا اور شاید یہی کامیابی ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کامیابی ایک امیر بندے کو ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ غریب بندہ بھی اس سے ہمکنار ہوسکتا ہے صرف اس کے طریقے میں اختلاف ہوگا۔

ساری سطور لکھنے کا مقصد اور مدعا یہ ہے کہ پہلے تو کامیابی کے حصول کی تمنا کی جائے، دوسرے کامیابی کے حصول کے لئے دولت یا شہرت نہ ہونے کو رکاوٹ نہ سمجھا جائے، تیسرے کامیابی کے حصول کے لئے کسی معاون کا انتظار نہ کیا جائے، چوتھے کامیابی کا مقام چھوٹا نہیں بڑا ہو اور پانچویں یہ کہ کامیابی عارضی نہیں بلکہ ابدی ہو۔ کامیابی کے حصول کی شرط اول یہ ہے کہ محنت درست سمت میں ہو نہ کہ مخالف سمت میں۔ اگر ہم تین الفاظ میں کامیابی کے حصول کو بیان کریں تو وہ کچھ یوں ہوگا توکل، محنت، کامیابی۔ انسان عموما جیتا ایسے ہے جیسے مرے گا نہیں اور مرتا ایسے ہے جیسے جیا ہی نہیں۔ ساری زندگی محنت کرکے اپنی صحت گنوا کے دولت حاصل کرتا ہے پھر اسی دولت کو خرچ کر کے صحت کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔

اللہ کریم ہم سب کو اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب کریں چاہے، عارضی ہوں یا دائمی۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔