1. ہوم
  2. کالمز
  3. سید تنزیل اشفاق
  4. طلب شہرت کے مارے لوگ

طلب شہرت کے مارے لوگ

یوں تو ہر کسی کے دل میں خواہش ضرور ہوتی ہے کہ وہ پہچانا جائے دنیا اُسے رُک رُک کے دیکھے، لیکن اس کا اظہار کم کم لوگ کرتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن کسی بھی خواہش کا حد سے بڑھ جانا حدودِ تشویش میں داخل ہو جاتا ہے۔ دنیا میں آپ کی مشہوری کا سبب آپ کے اعمال ہوں یہ اور بات، لیکن مشہوری کے لئے نامناسب راہوں کا انتخاب غیر مناسب ہے۔

مشہور ہونے اور چاہے جانے کی خواہش اگر بے لگام ہو جائے تو صرف یہ علت کئی روحانی امراض کی جڑ بن جاتی ہے۔ چاہے، پہچانے اور شہرت کے حصول کی علت جھوٹ کی وادیوں میں کب اُتر جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا اور پھر جب جھوٹ کی وادی میں بندہ اترتا ہے تو اس وادی میں زمین دلدلی ہوتی ہے، جب کہیں اگر حقیقت کا احساس ہو بندہ گردن گردن دھنس چکا ہوتا ہے جہاں سے واپسی کے امکان ندارد۔

یہ علت کسی ایک معاشرے، مذہب، پیشے کے حامل افراد سے منسلک ہرگز نہیں، بلکہ یہ وہ وبائی علت ہے جس کے شکار آپ کو کثرت سے ملیں گے۔ شہرت کی بھوک ایسی بھوک ہے کہ جتنی ذیادہ ملے اتنی ہی بھوک بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور عجب نہیں کہ یہ بھوک اس کے محسنوں کو بھی نگل جائے۔ ان میں وہ محسن بھی شامل جنھوں نے آپ کو وجود بخشا، آپ کو شعور دیا، آپ کی بلندی کی جانب بڑھنے کے لئے سیڑھی بنے۔

طلب شہرت کے ڈسے بندے پھر پانی بھی نہیں مانگتے۔ انکے لئے اپنی ذات کے حصار سے نکلنا ممکن نہیں رہتا، وہ ایسی آنکھوں کے حامل ہوتے ہیں کہ جن آنکھوں پہ ان کی حصار ذات کے چشمے لگے ہوتے ہیں۔ ایسے چشمے جس میں کوئی مخالف یا تنقید کرنے والا نظر نہیں آتا، فقط خود یا آپ کی واہ واہ کرنے والے آپ کو حواری نظر آتے ہیں۔

طلب شہرت بندے کے دماغ میں یہ خناس بھر دیتی ہے کہ دنیا تو ہے ہی آپ کی وجہ سے، یہ جو گلشن کا کاروبار چل رہا ہے یہ آپ ہی کے وجودِ بابرکت کی وجہ سے ہے، یعنی آپ نہ ہوں گے تو چرخ آسمان رک جائے گا، دریا بہنا بند ہوجائیں گے، موجوں کی روانی تھم جائے گی۔

یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ یہ سب تارِ عنکبوت سے بھی کمزور بنیادوں پہ قائم محل ہے جسے ختم ہوتے ایک لمحے سے بھی کم وقت لگے گا۔ یہ ایسا نشہ ہے کہ جو ایک صحت مند انسان کو موت کی وادیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ کتنے ہی فلمی ستارے اس زعم کے شکار رہے کہ کوئی فلم ہمارے بغیر بن ہی نہیں سکتی، کتنے کھلاڑی جو اس زعم میں رہے کہ ہمارے بغیر کامیابی مل ہی نہیں سکتی، کتنے ہی واعظ و شاعر اس مغالطے کا شکار رہے کہ ہمارے بغیر تقریر یا مشاعرہ مکمل ہو ہی نہیں سکتا، بقول میر تقی میر۔۔

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

حقیقت یہی کہ کوئی بھی خبطِ عظمت اور شہرت کی بھوک کا مارا ہوا اس جہان کے لئے لازم نہیں ہے، ہرگز نہیں ہے۔ یہ دنیا وہ میدانِ عمل ہے جو اس غرض سے سجائی گئی ہے کہ یہاں ثبات کسی کو نہیں، ہر ایک نے چلے جانا ہے، اچھے اور برے دونوں نے، طلب شہرت کے مارے اور خلوت نشین دونوں نے۔ حقیقت پسند اور سرابوں کے محل بنانے والوں نے۔ اب یہ انسان پہ ہے وہ کس ڈگر کا انتخاب کرتا ہے۔

مولا علیؑ کا فرمان ہے جس کا مفہوم ہے، تم اچھا کرو اور لوگ تمھیں برا کہیں یہ اس سے اچھا ہے کہ تم برا کرو اور لوگ تمھیں اچھا کہیں۔

میرے نزدیک انسان کو حقیقت پسندی کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔ انسان بہر طور یہ جانتا ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ، کیا حقیقت ہے اور کیا فریب۔ گو حقیقت پسندی کا راستہ تلخ، تُند اور دشوار گزار ضرور ہے لیکن اس راستے کی منزل نہایت عمدہ ہے، جبکہ دوسری طرف سراب ہی سراب اور فریب ہی فریب۔

شہرت، خود پسندی، انا وہ کوبرا سانپ ہے جس کا جتنی جلدی سر کچل دیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔

ضروری نہیں کہ ہر چمکتی چیز سونا ہی ہو، یہ بھی ضروری نہیں کہ طلب شہرت کی شاہراہ پہ ملنے والی عارضی کامیابی ہی منزل ہو، ایسے بندے سے منزل اتنی ہی دور ہوتی ہے جتنا اس زمین سے آسمان یا شاید اس سے بھی دور۔۔

سوچیں آپ کس طرف کھڑے ہیں؟

سید تنزیل اشفاق

Syed Tanzeel Ashfaq

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔