1. ہوم
  2. کالمز
  3. سید تنزیل اشفاق
  4. ایک خط ریحان حیدر کے نام

ایک خط ریحان حیدر کے نام

میرے پیارے ریحان حیدر،

بہت کم لوگ ہوں گے جو تکمیل کی منزل پہ پہنچ پاتے ہوں، میں اُس منزل کی بات کر رہا ہوں جو اِس ساری زندگی کی کمائی ہوا کرتی ہے۔ ہمیں یہ زندگی شاید عطاء ہی اس لئے کی گئی ہے کہ پچاس ساٹھ سال گزارو اور ہر روز اپنی منزل کی طرف حرکت کرو۔ ایک انسان کی زندگی پیدائش سے شروع ہوتی ہے اور انتقال پہ منتج ہوتی ہے۔

میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ ہوتے دیکھا، جو میں نے سمجھا کہ غلط ہے، کوشش کی کہ وہ سب میں نہ کروں، حالات نے مجبور بھی کیا لیکن کچھ اصول جو میں نے خود کے لئے وضع کیئے ہیں ان پہ آج بھی قائم ہوں۔ یہ کوشش تاوقتِ آخر جاری رہے گی۔

ہم ہمیشہ سے سونے کا نوالہ لے کہ پیدا نہیں ہوئے تھے۔ میرے ابا جی بتایا کرتے تھے کہ انکا گھر انکے تایا کے بیٹوں سے پُر رہا کرتا کہ انکے گھر میں دادا جی اپنے خاندان کے لئے "چَن چاچا" تھے اور پھر جب حالات نے پلٹا کھایا تو وہی گھر تھا اور وہی تائے کہ جو یہ کہتے تھے کہ ان سے کون رشتہ کرے گا اور ان سے کون رشتہ لے گا۔ غربت نے یہ دن بھی دکھائے کہ ایک کمرے میں جن کی چھتوں میں لکڑی کے "بالے" استعمال ہوئے تھے خستہ ہو چکے تھے اور "تھمیوں" کے سہارے کھڑے تھے۔

ابا جی کی اٹھان اس ماحول سے تھی اور خود ہمارے گھر میں صرف ایک فاقہ نہیں دیکھا باقی ہمہ قسم آزمائش دیکھی۔ خود میں نے اپنی زندگی میں دیکھا کہ ابا جی جب تک "سیٹ" پہ تھے تو دنیا دعوے کیا کرتی، کہ شاہ صاحب فکر ہی نہ کریں ہم آپ کے لئے آسمان سے تارے توڑ لائیں گے، بس آپ ایک حکم کیجئے گا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب "سیٹ" نہ رہی تو وہی اہلیانِ دعویٰ یوں بھول گئے جیسے کبھی ملے ہی نہ ہوں۔

جس مقام پہ ابا جی ہمیں چھوڑ کے گئے، اس مقام سے میں آپ سب کو ساتھ لے کر چل رہا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں آپ کے لئے ہر چیز باکمال کر رہا ہوں، لیکن یہ یقین رکھیئے گا کہ میں اپنی بساط میں جو ممکن ہے کر رہا ہوں۔ میں کبھی آپ کے معاملے میں خیانت کا مرتکب نہیں ہوں گا۔ ابا جی فرمایا کرتے تھے کہ اولاد کا بہترین دوست اس کے ماں باپ ہوا کرتے ہیں، تب ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آئی لیکن آج روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔

ابا جی نے بھی ہمیں اپنی بساط سے بڑھ کر پڑھایا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں تو کالج نہیں جاسکا لیکن میری خواہش ہے کہ میری اولاد کالج و یونیورسٹی جائے، یہ ایسا ہی ہوگا کہ جیسے میں خود کالج و یونیورسٹی جا رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں ان کا ہم پہ سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ انہوں نے ہمیں زیورِ تعلیم سے نوازا۔ اسی طرح میری بھی خواہش ہے کہ آپ تعلیمی مدارج طے کریں، اچھے اداروں میں جائیں اور اپنے آنے والی زندگی کو آسان بنائیں۔

اس دوران آپ گواہ ہیں کہ نہ آپ کو اور نہ ہی اپنے باقی بچوں کو کسی قسم کا تشدد کیا، نہ ہی آپ کو مجبور کیا کہ "بیٹا فرسٹ ہی آنا ہے"۔ میں نے آپ کو اور اپنے باقی بچوں کو آزادی دی کہ آپ جو چاہیں کریں، یہ ضرور کہا کہ جو بھی کریں یہ ضرور دیکھ لیں کہ آپ کے عمل سے نیک نامی ہوگی یا بدنامی۔

آج کے دن آپ زندگی کی 12 بہاریں دیکھ چکے ہو، آگے کی زندگی میں ایک جہان ہے جو آپ کا منتظر ہے۔ آج کے دن آپ کے لئے ایک نصیحت و وصیت ہے کہ آپ کی صورت اس معاشرے کو، اس خاندان کو ایک اچھا اور منفعت بخش انسان ملنا چاہئے۔ اس زندگی میں نفرتین پھیلانے والے بہت مل جائیں گے، لیکن زخم پہ مرہم رکھنے والا کم ملے گا۔ سو اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں بغیر کسی امید کے، بغیر کسی صلے کے۔

ڈھیروں جیئیں اور جینے دیں، اللہ کریم آپ کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائیں۔

سید تنزیل اشفاق

Syed Tanzeel Ashfaq

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔