1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. عشقِ رسول ﷺ

عشقِ رسول ﷺ

چودہ سو سال قبل، سر زمینِ حجاز سے بلند ہونے والا پیغامِ محبت آج بھی دلوں میں ویسے ہی جگمگا رہا ہے جیسے تب تھا۔ بنیادی وجہ جس کی یہ کہ پیغام تھا ہی اتنا دل نشین کہ ہر کسی کا دل اس جانب کھنچا چلا جاتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پیغام لانے والا سرتاجِ انبیاء، پیمبر امن، حضرت محمد ﷺ۔ یہ پیغام غریبوں، مظلوموں، فاقہ کشوں کے لئے اکسیر کا درجہ اختیار کرگیا اور یہ پیغام ان کے لئے سَپر بن گیا۔ یہ پیغام ظالم کے لئے وعید اور مظلوم کے لئے نوید ہے۔ پھر ایسی سرکارﷺ سے کوئی کیوں نہ محبت کرے، اس کے کیوں نہ واری جائے کہ جو اِس دنیا اور اُس دنیا میں والی و وارث بن جائے۔ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اپنی جان اور اپنے ماں، باپ سے ذیادہ سرکارﷺ سے محبت کی جائے۔

اختلاف محبت کے اظہار میں ہے۔ کوئی کسی کی محبت میں خود کی کلائی کو کاٹ کے، خون نکال کے محبت کا اظہار کرتا ہے اور کوئی اپنے محبوب کے کردار، قول و فعل پہ عمل کر کے۔ اور کچھ لوگ تو دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ سرکارﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔ آپ گزرے چند دنوں میں ہونے والے واقعات کا جائزہ لیجئے، اور تعصب کی عینک اتار کر فیصلہ کیجئے، کہ جو کچھ ہوا وہ کیا تھا؟ وہ عشق کا اظہار تھا یا عملی فساد تھا؟ ارشاد عارف صاحب نے کیا خوب ارشاد کیا تھا۔ ۔

رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایماں

امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے​

وہ رسول ﷺ جو عالمین کے لئے رحمت بن کر آئے، آج اُسی رسول کی امت خوف کی علامت کیوں ہے؟ دور رسالت مآب میں جو بڑھیا روز سرکار کی گستاخی کرتی تھی، اُس کا گھر تو کسی نے نہیں جلایا، بلکہ سرکار نے ناغے والے دن جا کر عیادت کی۔ وہ خاتون سرکار ﷺ کے حسن عمل دیکھ کر سرکار ﷺ پر ایمان لے آئی، یہ ہے سرکار کا عمل۔ دوسرا عمل امت رسول کا عمل ہے جو لاہور سے شیخوپورہ، فیصل آباد سے پشاور ہوا۔ سوال یہ بنتا ہے کہ اس عمل کو دیکھ کر کتنے بندے دامن اسلام میں آئیں گے؟

سب سے بڑا سوال یہ کہ جس کے سوچتے ہی جسم میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے کہ اگر سرکار ﷺ یہ سب دیکھ رہے ہوں تو خوش ہوں گے یا ناراض؟ کیلوں کے ریڑھی، جس کا مالک ایک نو عمر بچہ تھا، اس کی ملکیت کو جن لوگوں نے لوٹا وہ کون لوگ تھے؟ کیا وہ بھی عاشق تھے؟ کیا وہ بھی عشق کا اظہار تھا؟ دن دیہاڑے بیکری کے مال کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹنے والوں کا عمل بھی عشق تھا؟ اگر یہ عشق کا اظہار تھا تو پھر توہین کیا ہے؟

عاشقوں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے معشوق کے اسلوب میں ڈھل جاتے ہیں۔ کہ رانجھا رانجھا آکھو مینوں، ہیر نہ اکھے کوئی۔ بڑے مشہور کالم نگار جن سے ایک غیر مسلم تاریخ دان نے پوچھا کہ آپ کے آئیڈیل کون ہیں، بے ساختہ کہا، حضرت محمد ﷺ، پوچھا کہ ان کی کونسی خوبی ایسی ہے جو آپ میں ہو؟ جواب نہ دارد۔ پوچھا کہ وہ آپ کے کیسے آئیڈیل ہیں جن کی کوئی خوبی آپ میں موجود نہیں، یہ محبت نہیں یہ منافقت ہے۔

وہ املاک، جن کو ان دنوں میں نقصان پہنچا کیا وہ بھی گستاخ تھیں؟ جن گاڑیوں، ریڑھیوں، دکانوں اور انسانوں کو نقصان پہنچایا گیا یقینا وہ بھی گستاخی کی مرتکب ہوئی ہونگی، جب ہی ان کی ایسی کی تیسی پھیری گئی۔ جن کا نقصان ہوا ان کا مداوا کون کرے گا؟ وہ احتجاجی عاشقان یا حکومتِ وقت؟

آیئے، اپنی انگشت کو دوسروں کی جانب کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں باقی کی چار انگلیاں خود کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اس امر کا محاسبہ کرے کہ وہ سرکار ﷺ کے کتنے فرامین پہ عمل پیرا ہے؟ جو کوئی جتنا ذیادہ عمل کرنے والا ہے وہ اتنا ہی بڑا عاشق ہے، جو نہیں کرتے وہ کیا ہیں؟ فیصلہ آپ پہ چھوڑتے ہیں۔ ۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔