1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. پشاور یاترہ

پشاور یاترہ

پشاور سے ہمارا رشتہ اسی وقت منسوب ہو گیا تھا جس دن ہم اس دنیا میں تشریف لائے۔ تب سے اب تک پشاور ہم میں بستا ہے۔ ہمیں اب بھی یاد ہے کہ جب آج سے پندرہ سال قبل پشاور کو ظاہری طور پہ خیر باد کہنا پڑا تو دل گرفتہ اورآنکھوں میں آنسو موجود تھے۔ لاہور آکر بھی پشاور کو دل سے نکال نہ پائے۔ دل کرتا کہ کب ہمیں پَر ملیں اور کب ہم پشاور جا پہنچیں۔ کہ ہم تو لاہور آبسے تھے مگر خود سے قیمتی دوست وہیں چھوڑ آئے تھے۔ صد شُکر کہ ظاہری فاصلے اس دل سے دوستوں کو دور نہیں کرپائے۔ ویسے بھی ہمارے دوست تھے ہی کتنے؟ عاطف مفتی اور ضیاء مرتضی۔ جو ہمارے دل کے جانی تھے، ہیں اور جب تک ہم ہیں رہیں گے۔

ماہِ نومبر کے آغاز میں عاطف مفتی کی فون کال آئی کہ میری شادی اسی ماہ طے پائی ہے سو آپ کی شرکت نہ صرف ضروری ہے بلکہ فیملی ساتھ لے کر آئیں۔ دل کی آرزو تھی سو پوری ہوئی کہ پشاور سے بلاوا آیا ہے، سو عزمِ صمیم کے تحت ہم نے طے کرلیا کہ اس دفع ضرور بالضرور جائیں گے۔ گھر آگاہ کیا اور تیاریاں ہونے لگیں۔ ویسے بھی یہ فریضہ بہت پہلے ادا ہوجانا چاہئے تھا، دیر آید، درست آید۔

23 نومبر کی رات کو رختِ سفر باندھا اور اس ارادے سے نکلے کہ بذریعہ موٹروے منزل پہ پہنچا جائے، موٹر وے ابھی پانچ منٹ کی مسافت پہ تھی کہ پتا چلا کہ موٹروے بند کردی گئی ہے۔ وجہ عاشقانِ مولوی خادم حسین۔ موصوف کی گرفتاری عمل میں آئی اور اسی رات انکے مریدین نے موٹر وے بلاک کردی۔ سرمنڈواتے ہی اولے پڑگئے۔ سوچا جی ٹی روڈ سے نکلتے ہیں، امامیہ کالونی پہ بھی سڑک دونوں طرف سے بلاک۔ نیت نیک تھی، راہ نکل آئی، گوگل میپ کی بدولت ایک گلی سے راستہ ملا اور خدا خدا کر کے کالاشاہ کاکو انٹرچینج پہ پہنچے، وہاں سے بھی گاڑیاں واپس آرہی تھیں، سوچا خدا خیر ہی کرے، خیر ہی رہی، یہ لاہور جانے والی گاڑیاں تھیں جو واپس آرہی تھیں۔ جونہی ہماری باری آئی، بوتھ والے بھائی نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ ہم نے کہا پشاور، کہا جلدی جلدہی نکل جاو۔ ہم نے کارڈ پکڑتے ہی اسلام آباد کی جانب راہ لی۔۔

صبح آٹھ بجے کے قریب پشاور پہنچے، اور دوست کے دولت کدے پہ جا کہ اطلاع دی کہ بادشاہ سلامت آگئے ہیں۔ دوست (عاطف مفتی) آنکھیں ملتے ملتے باہر آئے، گویا کہ یقین ہی نہیں آرہا کہ میں پہنچ گیا ہوں۔ خیر عاطف نے یخ بستہ کمرے میں فوج ظفر موج کو بٹھایا۔ ہماری حالت دیکھتے ہی بھانپ گئے کہ مسافروں کو ٹھنڈ کچھ ذیادہ ہی لگ رہی ہے، سو ہیٹروالے کمرے میں بٹھایا گیا۔ جس کے ہم تہہِ دل سے ممنون ہیں۔ کچھ ہی دیر میں ناشتہ کا بندوبست ہوا جس پر ہم مال ِغنیمت سمجھتے ہوئے ٹوٹ پڑے۔ ناشہ کے بعد کچھ سکون ہوا۔

ہوٹل پہنچے، سارا دن سوتے رہے کہ ساری رات سفر میں کٹی، جیسے ہی آنکھ کھلی، بھوک نے ستایا، سو ہم اپنے مجاہدوں کو 'جلیل کباب ہاوس' لے کر پہنچے۔ خوب دل سے کھانا کھایا اور پھر واپس ہوٹل، کہ نیند نے ایک بار پھر غلبہ کیا۔ شام 8 بجے بارات نکلی، کھانا کھایا۔ اسی دوران رات 12 بج گئے۔ فیملی کو ہوٹل بھجوا دیا کہ دوستوں کا عاطف مفتی بارے پلان کچھ اور تھا اور ہمیں کافی دیر ہونا تھی۔

عاطف مفتی کے دوستوں کی کمپنی 18 افراد پہ مشتمل ہے۔ ضیاء مرتضی، عرفان مروت، عرفان قادر، عمرخیام، اسد عرف شینو، نبیل عرف کالو، ڈاکٹر حسیب، حاجی صاحب، چینگ، علی، فرحان جہانگیر، عثمان ملک۔ جن کے نام یاد نہیں ان سے معذرت۔ یہ کمال کے دوست ہیں۔ تمام دوست مختلف النوع، کوئی پٹھان، کوئی ہندکووال، کوئی درے وال اور کوئی مائیگریٹڈ۔ کسی کی زبان ارود، کسی کی پشتو، کسی کی ہندکو۔ کوئی کاروباری، کوئی نوکری پیشہ۔ لیکن اس تنوع کے باوجود کسی دل میں حسد، شک، بغض نہیں تھا۔ تمام ایک دوسرے سے پیار کرنے والے اور جان نثار کرنے والے۔ ان سب کی امی ضیاء مرتضی ہیں۔ گویا، بی آر ٹی کے سبب اجڑے ہوئے پشاور، کی پیشانی پہ بکھرے ہوے موتی ہیں یہ سب۔

تمام دوستوں نے عاطف کے گھر پہنچنے پہ اتنی شاندار آتش بازی کی کہ وہ مناظر دیدنی تھے۔ کم و بیش ایک گھنٹہ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اور پھر دوستوں نے عاطف مفتی کو دلہن کے پاس جانے کی بجائے، اپنے ساتھ لیا اور مکڈونلڈز پہنچے۔ دولہے سے خرچہ کروایا اور رات تین بجے واپس پہنچے۔

رات گئے ایسا سوئے کہ 11 بجے آنکھ کھلی، ناشتہ کیا اوراپنے دل کے جانی ضیاء مرتضی کے گھر دھاوا بولا کہ کہیں وہ ہمارے شر سے محفوظ نہ رہیں۔ شام تک وہیں رہے، واپسی پہ ضیاء ہمیں ہوٹل چھوڑنے آئے، دو، تین گھنٹے، دل کے دریچے کھولے ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔ یہ دو تین گھنٹے زندگی کے یادگار لمحوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یوں لگا گویا ابھی تو دس منٹ بھی نہیں ہوئے۔ یوں ولیمہ کا وقت آن پہنچا۔ رات گیارہ بجے رخصت لی، گو دلی کیفیت یہ تھی کہ ایک دن اور رک جائیں۔ لیکن بہ وجوہ نہ رک سکا۔

اس سفر کے دوران عاطف مفتی کے گھر والوں اور ضیاء بھائی کی فیملی خصوصی طور پہ بھابھی سے ملنے والی محبتوں کا میں مقروض رہوں گا۔ یہ محبتیں میری باقی ماندہ زندگی کا اساسہ رہیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ بچوں کی گلکاریاں نہیں بھولیں گی۔ خصوصا مرتضی اور انعم۔

اگلی صبح سات بجے واپس گھر پہنچے۔ تب سے اب تک اس سفر کی خماری موجود ہے۔ اب بھی گویا محسوس ہوتا کہ اب بھی پشاور ہی ہوں، دوستوں کے ہمراہ۔ اللہ ایسے دوست سلامت رکھے، ایسے جذبے سلامت رکھے۔ ایسے تمام دوستوں کی ہر دم خیر۔۔۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔