1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. ٹراں ٹراں

ٹراں ٹراں

بعض اوقات کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو آپ کے دماغ میں اٹک کے رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک لفظ 'ٹراں ٹراں' ہے۔ گو اس لفظ کی بُنت دیکھنے میں کچھ خاص نہیں، لیکن اس کا صوتی آہنگ ایسا ہے جس سے نجات نہیں مل پا رہی اور اس لفظ کی گونج دماغ کے نہاں خانوں سے بلند ہوتی محسوس ہوتی ہے اور پھر گنبدِ سماعت میں گونجتی ہے۔ لاکھ کوشش کی کہ ٹراں ٹراں سے نجات مل جائے لیکن جتنا کوشش کی کہ اس لفظ سے صرفِ نظر کیا جائے، اتنا ہی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، یعنی ٹراں ٹراں بڑھتی گئی جوں جوں بھلانے کی کوشش کی۔
ٹراں ٹراں کی آواز موسمی مینڈکوں سے منسوب کی جاتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ انسان بھی بسا اوقات ٹراں ٹراں کر لیتا ہے۔ دِکھنے میں تو انسان ہی لگتے ہیں لیکن شاید دماغ مینڈک کا ہو۔ سارا سال عموما سکون رہتا ہے، جیسے ہی موسم برسات آنے والا ہوتا ہے، ٹراں ٹراں کی خوش الحان آوازیں، کانوں میں رس گھولنا شروع کر دیتی ہیں۔ اکثر یہ آوازیں بارش نہ ہونے کے سبب بلند ہوتی ہیں، مگر کچھ مینڈک ایسے ندیدے ہوتے ہیں کہ جنکی ٹراں ٹراں بارش کے دوران بھی بند نہیں ہوتی۔ گویا انکی ٹراں ٹراں یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ 'دل ہے تو مانگو مور'۔
ٹراں ٹراں کے بارے ہماری دوست محمد اشتیاق یوں رقم طراز ہیں، "مینڈک کی ایک مجبوری تو یہ ہوتی ہے کہ اس نے ٹراں ٹراں لازمی کرنی ہے۔ بارش ہو تو کیا کہنے۔ ۔ بہترین ماحول ہو گیا اس کے لئے۔ ۔ ۔ کبھی ایک کونے میں کھڑا ہو کے کرے گا۔ ۔ ۔ خاموشی ہونے لگی تو بھاگ کے دوسرے کونے میں کھڑا ہو جائے گا اور ادھر سے بالکل مخالف سمت میں بعینہہ ویسی ہی ٹراں ٹراں شروع کر دے گا۔ ۔ ۔ ۔ اگربارش نہ ہو، ڈونگروں کا قحط پڑ جائے تو کوئی اور تالاب یا گندا نالہ ڈھونڈے گا کہ اس میں گھس کے "ٹراں ٹراں" کر سکے۔ ۔ ۔ کیوں کہ ٹراں ٹراں بہت ضروری ہے اس کے بغیر جینا مشکل ہے۔، دوئم، اکیلا ٹراں ٹراں نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ پورا قوال گروپ چاہیے جو اپنی اپنی آوازوں، اور اوقات کے مطابق ہلکی ہلکی ٹراں، کے ذریعے 'می ٹو' قسم کا احساس دلا سکیں۔ ہر کونے میں کھڑے ہو کہ جب ایک جیسی ٹراں ٹراں کے بعد یہ احساس زور پکڑتا ہے کہ یہ ٹراں ٹراں نہیں۔ ۔ 'زبان خلق' ہو گئی ہے یا 'نیرو کی بانسری' ہو گئی ہے تو وہ وقت ہوتا ہے جس کے لئے محاورہ مشہور ہے۔ ۔ 'بے مینڈکی کو زکام ہونا'۔ ۔ ۔ "
آپ محسوس کیجئے کہ مینڈک کی نفسیات کتنی باریک بینی سے دیکھی اور بیان کی گئی۔ اب آپ درج بالا پیراگراف سے ٹراں ٹراں کو حزف کر کے پڑھئے، مجھے امید ہے کہ آپ کو زرا لطف نہیں آئے گا۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ مینڈک چاہے مرتبانی ہو یا سماجی دونوں کے لئے ٹراں ٹراں ضروری ہے۔ میں مستقبل قریب میں دیکھ رہا ہوں کہ ٹراں ٹراں کو ایک بلند مقام ملنے والا ہے اور عنقریب ہر احتجاج کا نعرہ ٹراں ٹراں کا محتاج ہوگا، مثلا 'ٹراں ٹراں کو عزت دو'، 'ٹراں ٹراں کو جینے دو'، 'میری ٹراں ٹراں میری مرضی'، 'تیری ٹراں میری ٹراں، ٹراں ٹراں، ٹراں ٹراں' اور 'ساڈی ٹراں ٹراں ایتھے رکھ'۔
میں امید کرتا ہوں کہ ٹراں ٹراں کا استعمال اتنا ذیادہ ہوگا کہ حکومت وقت ٹراں ٹراں کو قومی لفظ بنانے پہ مجبور ہو جائے گی۔ زرا سوچئے کہ ایک مجبوب اپنی محبوبہ سے دوران ملاقات اظہار کرے گا تو کیسا لگے گا، جانو، جب سے آپ ملی ہو میری ٹراں ٹراں کو قرار آگیا ہے، جس دن آپ سے بات نہ ہو، ملاقات نہ ہو میری ٹراں ٹراں بے چین ہو جاتی ہے۔ جانو، میں جب بھی دور سے آپ کو دیکھتا ہوں میرا دل کرتا ہے کہ میں زور زور سے ٹراں ٹراں کروں۔
آیے، ہم عہد کریں کہ ہم ٹراں ٹراں کو اس کا جائز مقام دلوانے میں اپنا کردار ضرور کردار ادا کریں گے۔ جو جو بھی 'انجمنِ بہبود ٹراں ٹراں' کا ممبر بننا چاہتا ہے وہ اس تحریر کی تشہیر تمام احباب میں کرے کہ ہم سب محبّان ٹراں ٹراں ہیں، اور ہم سب ٹراں ٹراں کو دن دگنی، رات چوگنی ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ آخر میں سب مل کر نعرہ لگاتے ہیں 'تیری ٹراں میری ٹراں، ٹراں ٹراں، ٹراں ٹراں'، پھر بولو۔ ۔ ۔ ۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔