1. ہوم
  2. کالمز
  3. سید تنزیل اشفاق
  4. میرا ڈر

میرا ڈر

ہم میں سے اکثر کسی نہ کسی خوف میں مبتلاء ہوتے ہیں، جس کی بظاہر کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی، کوئی حادثہ نہیں ہوتا، بس خوف ہوتا ہے۔ اب بھلے یہ خوف اُنچائی کا ہو، یا پانی کا، پانی میں تیراکی کا یا پھر ڈرائیونگ کا۔ اونچائی کا خوف ہو تو لگتا ہے میں ابھی گرا کہ گرا بھلے آپ نے تمام حفاظتی انتظامات کر رکھے ہوں، لیکن یہ خوف قسمت سے ہی نکلتا ہے۔ پانی کا خوف ہو تو ہر وقت ڈوب جانے کا ڈر دامن گیر رہتا ہے۔

میں بھی کئی طرح کے ڈر کا مارا ہوا ہوں، جن میں سے ایک گاڑی ڈرائیو کرنے کا ڈر یا خوف ہے۔ بھلے تھیوریٹیکلی مجھے گاڑی چلانے کے تمام امور کی بابت آگاہی ہے، لیکن گاڑی کو مین روڈ پہ لانے کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہا۔ ڈر ایک سوچ سے منسلک رہا کہ اگر میں گاڑی 80 سے 100 کلومیٹر کی رفتار سے چلا رہا ہوں اور اگر غلطی سے ریورس گئر لگ گیا تو کیا ہوگا؟

ابا جی یہ کہتے اس دنیا سے چلے گئے کہ تینوں بیٹوں کو گاڑی لے کے دینی ہے اور بڑے بیٹے کو بڑی گاڑی، لیکن سچی بات ہے کہ گاڑی سے محبت کبھی اس دل میں جگہ نہیں بنا پائی۔ والدہ بہانے بہانے سے اور کبھی زبردستی گاڑی چلانے کا کہتیں اور بھائیوں کو بھی سختی سے کہتی کہ اسے چلانے دو، جبکہ میری ہمیشہ سے کوشش ہوتی کہ مجھے گاڑی نہ چلانا پڑ جائے۔

ایسا نہیں کہ صرف مین روڈ کا ڈر ہے، اگر ایسا ہوتا تو موٹر سائکل کی سواری کے وقت بھی ہوتا لیکن موٹر سائکل کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔

پھر یوں ہوا کہ عیدِ قربان کی چھٹیاں ہوئیں اور چھٹیوں سے پہلے عید ملن پارٹی بہمراہ فیملی کا دعوت نامہ ایسی جگہ سے موصول ہوا جہاں میں نہ تو انکار کر سکتا تھا اور نہ ہی ٹال مٹول۔ عید کے مصروف دن گزارنے کے بعد کتنی دیر اس بات میں لگ گئی کہ کون کون جائے گا۔ یہ روز کے اُسی سوال کی مانند ہے کہ آج کھانے میں کیا پکنا ہے۔

پہلے تو فیصلہ یہ ہوا کہ گاڑی چونکہ ایک ہے سو چار افراد ہی جائیں۔ صبح ہوئی تو ایک عدد اور گاڑی گھر کے صحن میں کھڑی تھی، سو اب چار سے ذیادہ افراد جا سکتے تھے۔ اب نئے سرے سے کابینہ بیٹھی کہ اب کس کس نے جانا ہے۔ یہ طے ہوا تو پتہ چلا کہ برادرِ صغیر کی کمر میں درد ہے اور وہ ہل بھی نہیں پا رہے۔ اب پھر مسئلہ درپیش کہ "ہُن کی کریئے"۔

جو افراد تیار ہوچکے تھے اور کچھ ہو رہے تھے، پھر ڈھیلے پڑ گئے کہ گاڑی تو پھر ایک ہی جانی ہے۔ مجھے پتہ نہیں کیا سوجھی کہ کہہ دیا، نہیں سب تیار ہوں، دونوں گاڑیاں جائیں گی۔ شاید ذہن میں یہ تھا کہ ابھی کافی وقت ہے، تب تک بھائی کی طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔

لیں جی، وقت آگیا، بھائی صاحب بدستور ہل نہیں رہے اور تمام افراد تیار بھی ہوچکے۔ مرتا کیا نہ کرتا، اعلان کیا میں خود چلا لوں گا۔ خوشا قسمت کے دوسرے بھائی نے دونوں گاڑیاں گھر سے باہر نکال کے کھڑی کر دیں۔ فیملی کے افراد گاڑیوں میں بیٹھے آگے آگے مابدولت کی گاڑی اور پیچھے پیچھے بھائی نے گاڑی لگائی۔

پہلا سٹاپ پٹرول پمپ تھا، پٹرول ڈلوایا اور گاڑی پارک کی، ساتھ ہی ہینڈ بریک کھینچ دی کہ کچھ خریداری کرنی تھی۔ گاڑی پارک کرنے کے فوراََ بعد ہینڈ بریک کھینچنے کو آپ میری ایفیشینسی سمجھ لیں۔ خریداری کے بعد دوبارہ سفر کا آغاز ہوا، کئی کلومیٹر چلنے کے بعد پتا چلا وہ جو ہینڈ بریک کھینچی تھی وہ بدستور کھنچی ہوئی تھی، ماتھے پہ ہاتھ مارا، تبھی سمجھ آیا گاڑی اورہیٹ کیوں ہو رہی تھی۔ ہینڈ بریک ڈاؤن کی اور اسکے بعد چل سو چل۔

نہ تو رنگ روڈ اور نہ ہی جی ٹی روڈ پہ کوئی پریشانی ہوئی، شاید اچانک ریورس گئر کی درفنتنی دماغ میں نہیں آئی، جیسے ہی منزل پہ پہنچے، قمیص مکمل طور پہ گیلی یعنی ایسے جیسے نہا کے آیا ہو بندہ جس کی وجہ درجہ حرارت کا 46 ڈگری ہونا تھا۔

واپسی پہ کوشش تھی کہ اندھیرا ہونے سے پہلے نکلا جائے، واپسی کے لئے روانگی ہوئی، بھائی نے کہا کہ پٹرول ڈلوانا ہے، سو پمپ پہ رکے۔ پٹرول ڈلوایا اور گاڑی پارک کی کہ صاحبزادے نے مارٹ سے کچھ لینا تھا۔ گاڑی پارک کرتے ہی ہینڈ بریک کھینچی، وہی ایفیشینسی، جیسے ہی بیٹا واپس آیا، دوبارہ چلنے لگے۔ جیسے ہی ریس دی، بیٹی نے کہا کہ بابا گاڑی ڈانس کیوں کر رہی ہے، میں نے بھی توجہ نہ دی، سوچا نیا ڈرائیور ہوں شاید اس لئے، وہ تو گاڑی کافی دور تک چلانے کے بعد پتہ چلا کہ اس بار پھر ہینڈ بریک واپس ڈاؤن نہیں کی۔۔

گھر واپس پہنچے، والدہ خوش کہ میں نے منت مانی تھی کہ میرا بیٹا خود گاڑی چلائے گا تو کچھ بانٹوں گی۔۔ اب میں امی کو کیا بتاتا کہ میں ایفیشینسی کا کون سا تیر مار آیا ہوں۔۔

سید تنزیل اشفاق

Syed Tanzeel Ashfaq

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔