1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. ”الوداع“ سر اٹھائے مسکرانے والے

”الوداع“ سر اٹھائے مسکرانے والے

دور حاضر میں زندگی کے تمام شعبہ جات خصوصاً ایسے جن میں ریاضت، محنت، استقامت پتھر کو ہیرا بنا نے کے متقاضی ہوں وہاں کوئی کوئی ہوتا ہے جو پتھر سے ہیرا بننے کے کٹھن ناقابل بیان کشت کاٹ کر سنورتے ہیں ورنہ غالب اکثریت خود سامنے ہوں تو ان کا احساس ان کی موجودگی تک ہی رہتا ہے یا پھر موجودگی والے اسباب کے ساتھ یاد رہنے پر مجبور ہوتے ہیں خود کسی مقام جگہ سے اٹھے تو ان کا گمان بھی موجود نہیں رہتا ہے مگر پتھر سے ہیرا بننے والے کسی مقام یعنی اختیار عہدے اور جگہ پر نہ ہوں پھر بھی اپنے کردار افکار کے ساتھ ان کے تذکرے یادیں رواں دواں رہتی ہیں جن کی تابندہ مثال سلیم اختر پروانہ رہے ہیں۔

اپنے والد غلام نبی پروانہ مرحوم کے سفر صحافت کو ان کے بعد زندہ رکھتے ہوئے ان کے نام کی مناسبت سے یاد ہفت روزہ پروانہ کو نکھارے رکھا، نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ راوالپنڈی کے روزنامہ اخبار حیدر کے ساتھ نمائندگی کا فریضہ سر انجام دیا پھر عشروں روزنامہ نوائے وقت کے بیورو چیف کی ذمہ داری سے آخری سانس تک منسلک رہے، صحافت کے ساتھ سماجی کردار بھی ان کا مشن رہا، جاری صدی کے مقابلے میں گزشتہ صدی کے عشروں میں ذات کے لیے مفادات کا حصول زیادہ آسان رہا مگر سلیم پروانہ سر اٹھا کر سفر زندگی میں چلتے رہنے کا خاصہ ان کے لیے سبقت لے جاتا رہا جسکے وجود کو ہر حال میں برقرار رکھنے کیلئے تمام مواقعوں کو نظر انداز کئے رکھا اپنی انتظامی صلاحیتوں اور پیشہ وارانہ ساکھ و کردار کی بدولت مرکزی ایوان صحافت کے صدر جنرل سیکرٹری سمیت صحافتی تنظیموں کے عہدوں پر صرف عہدیدار نہیں بلکہ فعال کردار کا عملی ریکارڈ رکھتے ہیں ان کا دسترخواں اور اپنی زندگی، ذمہ داریوں میں اخلاقی، سیاسی، صحافتی ہر خبر حتیٰ کہ بیان کو بھی اپنے ہاتھوں سے تحریر کرتے ہوئے اخلاقی صحافتی ضابطے کے اندررہے کر اپنی اور اپنے ادارے کی ساکھ کا ہر حالت میں خیال رکھا جن کی شخصیت کا کمال ساری زندگی سر اٹھا کر زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے مسکراتا چہرہ رہا یہ مسکراتا چہرہ اور بہت باوقار خوشحال تندرست توانا نظر آتے رہنے والا کردار در حقیقت اس کی نہ نظر آنے والی بہت زیادہ تلخ تکلیف دہ دکھ الم برداشت کر کے قیمت ادا کرتا رہا مگر کسی موقع پر مقام پر اس کا عکس اپنے چہرہ و زبان پر نہ آنے دیا۔

پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر قائم اندر کے الاؤ اور توڑ پھوڑ کو شکست دیتے ہوئے بالآخر مکمل وقار اور عزت کے ساتھ اپنی حیات کے سفر کو تکمیل کرتے ہوئے سپردخاک ہوگیا ہے اب ان کے پیشہ وارانہ شعبہ میں ان جیسا کوئی نہیں رہا ہے اللہ انکی اپنی خلق کیلئے بھلائی کی کاوشوں کو مقبولیت فرماتے ہوئے بخشش فرمائے۔ ان سے پہلے رمضان المبارک میں تحریک حریت کشمیر کیلئے ساری زندگی خدمات سر انجام دینے والے حاجی غلام نبی وار بھی دنیا کو چھوڑ کر جا چکے ہیں لبریشن فرنٹ کے ضلعی ڈویژنل صدر، مرکزی نائب صدر سمیت مختلف عہدوں پر فعال کردار ادارکرتے رہے جن کا شمار1988کے بعد احیاء تحریک کشمیر کے ناموں میں ہوتا ہے مقبول بٹ، امان اللہ خان، یٰسین ملک سمیت تحریک، لبریشن فرنٹ کے صف اول کے لیڈروں کے ساتھ سرگرم کردار رہا۔ یہ ان کا مقام بتاتا ہے۔ رمضان المبارک میں اپنے مشن کے ساتھ منسلک رہتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور سلیم اختر پروانہ سے چند دن قبل این ایس ایف کے ساتھ زندگی کا بہت بڑا حصہ بطور سرگرم کردار رقم کرتے ہوئے نام پہچان بنانے والے مبارک اعوان بھی دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔

وزیر اعظم فاروق حیدر کے افکار کردار سے متاثر تھے مسلم لیگ ن کے قیام کے بعد ان کے قافلے میں شامل سفر ہوگئے مگر پاور پالیٹکس میں بھی آکر اپنے خاصہ اظہار کو ناراض نہیں کیا اور تمام ایشوز مراحل میں اپنی موجودگی و رائے کا جرات مندانہ انداز میں اظہار کو اپنی روایت بنائے رکھا ایک حقیقی و عملی سیاسی کارکن رہے جنکے مقابلے میں اسباب، حادثات چلاکیوں کے بل بوتے پر رہنما بن جانے والے زیرو رہتے ہیں۔ اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے۔ ان سے پہلے مسلم لیگ ن کے بھی سرگرم نوجوان کارکن راجہ فیصل زمان ایک حادثے میں دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں جو شرافت، محنت، اخلاص اور بے لوث وابستگی کے حوالے سے موجودہ سیاست میں اچھی مثال کی حیثیت سے مقام رکھتے تھے، رب العزت سلیم اختر پروانہ کے بھائی وسیم اختر پروانہ، ان کی والدہ محترمہ، عزیز و اقارب اور ان کو اپنی جان سے بڑھ کر عزیز اپنی دوست خالد زرگر، زاہد اکرم ایڈووکیٹ کو صبر عطا فرمائے جو بہت بڑے صدمے سے دوچار ہیں، قابل احترام نثار راتھرنے آخری دم تک ان کی دلجوئی کا فریضہ سرانجام دیا جن کی جدائی ان سمیت سب کیلئے بہت بڑا دکھ ہے، حاجی غلام نبی وار کے بھائی مقبول وار ایڈووکیٹ، اقبال وار اور ان کے فرزند فیضان وار سمیت تمام عزیز و اقارب لبریشن فرنٹ کے ان کے رفقاء ان کی جدائی کبھی نہ بھلا سکیں گے، مبارک اعوان کا بیٹا لقمان مبارک اور بھائی بشارت اعوان، انجم اعوان اور ان کے عزیز و اقارب بھی معاشرے میں اپنے لئے موجود ایک بڑے نام اور پہچان سے محروم ہو گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے اور خلق خدا کیلئے ان کی بھلائیوں کو ان کا وسیلا بخشش بنائے۔