1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ذیشان بلوچ/
  4. بنتِ حوا

بنتِ حوا

محمد

27 اکتوبر کا سورج اپنی آب و تاب سے نئے دن کا پیغام لیے طلوع هو رها تھا۔ چڑیوں کی چہچهاہٹ کانوں میں پڑ رهی تھی۔ منے کی ماں گائے کا دودھ دوهنے میں مصروف جبکه منے کا ابا اپنے اوزار لیے کھیتوں کی جانب نکلنے کی تیاری کررها تھا باهر سے کچی سڑک پر گدھا گاڑی پردو نوجوان مویشیوں کیلئے گھاس کاٹنے کیلئے جا رهے تھے دور بستی سے شهر جانے والی اکلوتی بس هارن بجا تے اور کچی سڑک پر مٹی دھول اڑاتی هوئی رواں دواں تھی۔ شهر جانے والے مسافر بس کے هارن سن کر سڑک کی جانب دوڑے چلے آ رهے تھے۔ گاؤں کے تالاب میں پانی بھرنے کیلئے بچیاں سر پر مٹکے لیے ایک دوسرے کے ساتھ چهه مگوئیاں کرتی هوئیں پهنچ رهی تھیں۔ ایک پانی بھر لیتی تو دوسری اسکے سر پر مٹکا رکھ کر اسے روانه کرتی اسی طرح گاوں کی تمام بچیاں و خواتین آ جا رهی تھیں۔ ساتھ اچھلتے کودتے اور ٹائر چلاتے بچے بھی۔ ۔ ۔ ۔ تالاب سے پانی بھرتے هوئے14 ساله (ش) بی بی سر پر پانی کا مٹکا لیے اپنی چند سهیلیوں کے ساتھ گھر کی جانب آ رهی تھی کہ اسے محسوس هوا که کوئی هے جو انکو گھیر چکا هے۔ پھر دیکھتےهی دیکھتے چند افراد ان پر ٹوٹ پڑے اور آتے هی ش بی بی کا هاتھ پکڑا اسی دوران ش بی بی کے سر سے پانی کا مٹکا زمین پر گرا ساتھی سهیلیوں نے چھڑوانا چاها تو انهیں بھی مداخلت کرنے پر دھکے دے دیے گئے۔ ش بی بی اور اسکی سهیلیاں عجب کشمکش میں پڑ گئیں که خدایا یه کیا هوا کیونکه سارا منظر بدل چکا تھا حسب معمول پانی بھر کے گھرلے جارهی تھیں اور اچانک قیامت کا سماں پیدا هو چکا تھا۔ سنسان سڑک پر بے یارومددگار اور اسلحه سے لیس هٹے کٹے مردوں کے چنگل میں پھنسی بچیاں گلا پھاڑ پھاڑ کر مدد کیلئے آوازیں دے رهی تھیں لیکن گاؤں کی اس سنسان سڑک پر انکی چیخ و پکار کسی تک نه پهنچ پا رهی تھی اور ظالم ش بی بی کو زبردستی گھسیٹ کر ساتھ لے گئے جبکه بیچاری چیختی چلاتی رهی۔ بستی میں لے جا کر سر سے دوپٹا اتار لیا گیا تن زیب کپڑے چیر پھاڑ دیے گئے۔ اور حوا کی بیٹی کو بستی کی گلیوں میں بھگایا جانے لگا پیچھے درندے نما انسان اسلحه لیے چلتے رهے حوا کی هر در کھٹکٹاتی جو کوئی باهر نکلتا مدد کیلئے هاتھ پھیلاتی تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا مانگتی لیکن گاؤں کے غریب پیچھے اسلحه لیے لوگوں کو دیکھ کر خوف کے مارے دروازه بند کر دیتے۔ اسی طرح بستی کی تمام گلیوں میں حوا کی بیٹی آدم کے بیٹوں کے هاتھوں تماشه بنی رهی۔ نه آسمان گرا نه زمین پھٹی نه کوئی فرشتے طوفان لے کر آئے۔ ۔ دوسری جانب سهیلیاں گھر پهنچ چکی تھیں اور اس دردناک واقعه کا پته چلتے هی ش بی بی کی ماں پاگلوں کی طرح ننگے پاؤں اپنی بیٹی کی عزت بچانے کو نکل پڑی بوڑھا باپ سنتے هی سکتے میں ره گیا۔ گھر سے تیزی سے نکلا اور خدا سے مدد کی طلب کرتے هوئے بستی کی جانب دوڑ لگائی پاؤں پھسلا اور نیچے گر پڑا پھر اٹھا اور کانپتے هوئے قدموں سے بستی کی جانب بھاگنے لگا۔ اس دوران ش بی بی اپنے رشته داروں کے در تک پهنچی اور دستک دی۔ در کھلتے هی اسے جس حال میں دیکھا گیا ان پر قیامت گزری۔ در پر آئی هوئی عزیزه نے اپنے سر کی شال سے فوراً ش بی بی کو اوڑھ لیا جبکه پیچھے سے آتے هوئے ظالم درندے نے وه شال بھی اسکے تن سےچھین لی۔ عین اسی وقت ش بی بی کی ماں اور باپ بھی موقع پر پهنچ گئے اور بیٹی کی حالت دیکھ کر زارو قطار روتے هوئے بیٹی کے جسم کو اپنے بدن سے چھپانے لگے ظالم بدمعاش اسکے والدین کو ڈرا دمکھا کر واپس پلٹ گئے اور ش بی بی کو قریب میں رشته داروں کے گھر لے جایا گیا۔ والدین بیٹی کو لے کر تھانه پهنچے لیکن تھانه میں ش بی بی کے بیان تک لینے سے انکار کیا جاتا رها۔ اس دوران یه تمام واقعه شهر سے باهر پهنچ چکا تھا۔ پولیس انتظامیه نے همیشه کی طرح ظالم کا ساتھ دیتے هوئے دونوں فریقین کے خلاف اغواء کا مقدمہ درج کردیا تاکه مقدمه کراس هو اور طاقتور افراد کے خلاف کوئی کاروائی نه هوسکے۔

یه انسانیت سوز واقعه صوبه خیبر پختونخواه کے ضلع ڈیره اسماعیل کی تحصیل درابن کے گاؤں گره مٹ میں رونما هوا۔

راقم الحروف پوچھنا چاهتا هے که آخر اس 14، 15 سالہ معصوم لڑکی کا کیا قصور تھا۔ ۔ ۔ کیا اسکا قصور یه تھا که وه غریب گھرانے میں پیدا هوئی، کیا اسکا قصور یه تھا که وه ایک پسمانده گاؤں میں رهائش پزیر تھی، یا پھر اسکا قصور هے تھا وه کسی سیاسی خاندان کسی وزیر، کسی صدر، کسی وزیر اعظم، کسی ایم این اے، ایم پی اے کی بیٹی نهیں هے۔ ایوانوں اسمبلیوں اور روز بروز اپنی بیوی بیٹی بیٹوں سمیت هوائی جهازوں میں سفر کر کے کبھی لندن تو کبھی دبئی آنے جانے انسانیت کے ٹھیکیداروں سے سوال ہے کہ اگر ایسا هی دلخراش واقعه تم میں سے کسی ایک کی بیٹی کے ساتھ هوتا تو تم پر کیا گزرتی تمهارا کیا ردعمل عمل هوتا۔ کیا تم اس طرح اپنی عزت کے چیتھڑے هونے کے بعد اس زمین پر قدم بھر سکتے؟ پوچھو اس بھائی سے جسکی معصوم بهن کو دن دیهاڑے برهنه کرکے گلیوں میں گھمایا هوگا سوچو کے اسکی دل پر کیا گزری هوگی اسکی غیرت کیا نه جاگی هوگی کیسے وه اپنے خاندان کی عزت مٹی میں مل جانے کے بعد امن پسند زندگی گزارنے کیلئے تیار هوگا۔ اس باپ پر کیا گزری هو گی جب وه گھر آکر اپنی بیٹی کا سامنا کرتا هوگا وه بیٹی کیسے اپنے باپ اپنے بھائی سے آنکھ ملا پائے گی جسکو ظالموں نے دن دیهاڑے بستی بھر کے لوگوں کے سامنے رسوا کیا کیسے کٹے کی اس معصوم کی پهاڑ جیسی زندگی جسکے آئینده رشتے آنا بھی بند هو گئے۔ ان ظالموں کو کیا سزا دے پاؤ گے تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

کیا اس کو اس معاشره میں وهی عزت و مقام دوباره واپس لا کر دے سکو گے؟؟؟؟؟؟؟

"شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات"