1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ذیشان نور خلجی/
  4. مساجد کی ویرانی اچھی لگتی ہے

مساجد کی ویرانی اچھی لگتی ہے

اندرون شہر کی جامع مسجد سے جمعہ ادا کر کے نکلے تو بیٹی نے سوال کیا کہ اب مسجد میں نمازی کم کیوں ہوتے ہیں اور میرے بولنے سے پہلے ہی بیٹے نے جواب دیا کہ پہلے رمضان تھا اس لئے مسجد میں رش ہوا کرتا تھا، بعد رمضان ایسی ہی ویرانیاں مساجد کا مقدر ہوا کرتی ہیں۔ اور میں اپنے بچپن کی طرف لوٹ گیا جب نماز جمعہ کے وقت یہاں تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے رمضان سے بھی زیادہ یہاں عام دنوں میں رش ہوا کرتا تھا خود میں نے کئی دفعہ وضو خانے میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی تھی۔

اور پھر بہت سالوں بعد جب میں واپس شہر کو لوٹا تو یہ مسجد میرے ناسٹلجیا کا حصہ تھی لہذا میں پھر بڑے ذوق و شوق سے یہاں جمعہ ادا کرنے لگا لیکن اب ایک واضح فرق جو میں نے محسوس کیا تھا وہ یہ تھا کہ پہلے جس مسجد میں جمعہ کے وقت کھڑے ہونے کو جگہ نہ ملتی تھی اب دوسری طرف اسی مسجد کا مرکزی ہال بھی پورا نہ بھرتا تھا۔ لیکن آپس کی بات ہے مسجد کی یہ ویرانی میرے لئے بہت اطمینان کا باعث تھی۔

دیکھیے، نہ تو میں یہود کا ایجنٹ تھا اور نہ ہی مجھے اللہ کے گھر سے کوئی چڑ تھی۔ اگر ایسا کچھ ہوتا تو میں کبھی مسجد کا رخ ہی نہ کرتا۔ اللہ کا شکر ہے اسلام کے قلعے میں ابھی نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے کا قانون پاس نہیں ہوا۔

بات کچھ یوں ہے کہ گزرے ان سالوں میں، میں یہ جان چکا تھا کہ مساجد میں مذہب کے نام پر جو کچھ بیچا جاتا ہے بہرحال وہ مذہب تو نہیں ہے اور ہماری نوجوان نسل کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ مساجد سے کنارہ کر جائے۔ قابل غور بات ہے کہ میں اس خرابی کا مثبت حل کیوں نہ تلاش کر سکا۔ یعنی ایسا کیوں نہ ہوا کہ میں یہ سوچتا کہ ہماری نئی نسل کا تعلق تو مسجد سے بنا رہے لیکن مذہبی طبقے کو یہاں سے چلتا کیا جائے۔ دراصل میں اس حقیقت کو بھی پہنچ چکا تھا کہ ہمارا مذہبی مافیا اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ ہم چاہ کر بھی اسے اپنے مذہبی شعار سے بے دخل نہیں کر سکتے۔

انہوں سوچوں میں غلطاں تھا کہ بیٹے کی آواز نے چونکا دیا۔ پوچھنے لگا چاچا! آپ کن خیالوں میں گم ہیں؟ میں نے مسجد کی رونق اور ویرانی کے حوالے سے اپنی یاداشتیں شئیر کیں اور مزید تاکید کی کہ بیٹا یہ بڑی خوش کن تبدیلی ہے کہ آج لوگ مساجد سے متنفر ہو چکے ہیں اور اسی میں ان کی بھلائی ہے کیوں کہ آج ہمارے علماء دھرتی کے جاہل ترین لوگ ہیں ان لوگوں کو ککھ پتا نہیں کہ موجودہ زمانے کی کیا ریکوائرمنٹس ہیں۔ یہ لوگ آج بھی ہزار سال پرانی زندگی جی رہے ہیں اور پھر اس جہالت پر فخر بھی کرتے ہیں۔ آج منبر پہ بیٹھے واعظ کی نظر اپنے پیٹ سے آگے نہیں دیکھ سکتی۔ ان غریب الذہن لوگوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ عوام مساجد میں خدا کا فضل تلاش کرنے آتے ہیں نہ کہ ان کے اکابرین کی عظمت کے قصے سننے۔ عوام مذہب سے تعلق مضبوط کرنے کے لئے مساجد کا رخ کرتے ہیں نہ کہ مسلک حق کی میمبر شپ حاصل کرنے۔ علماء کے تسلط کے باعث آج مساجد میں خیر سے زیادہ شر کا پہلو نمایاں ہو چکا ہے۔ اور یہ سب باتیں کرتے ہوئے مجھے احساس ہو رہا تھا کہ میں معصوم اذہان کی برین واشنگ کا گھناؤنا کام کر رہا ہوں لیکن دوسری طرف میرے پاس اس کے سوا چارہ بھی کیا تھا۔ کیا میں اپنی نسل کو ان بے رحم مذہبی سوداگروں کے حال پہ چھوڑ دیتا۔

اسی دوران ہم اپنے آبائی علاقے کی طرف آ چکے تھے۔ یہ ایک تنگ سی گلی تھی جیسا کہ اندرون شہر اکثر ہوا کرتی ہیں اب وہاں ایک نیا تماشا ہمارا منتظر تھا۔ چار فٹ چوڑی گلی کی نکڑ پر ایک جامع مسجد تھی جس میں جمعہ کی نماز ابھی ادا کی جارہی تھی۔ اب گلی میں دو موٹر سائیکلیں آمنے سامنے دیواروں کے ساتھ کھڑی تھیں کہ کسی نمازی نے جلد بازی میں اپنی تیسری موٹر سائیکل بھی ان کے بیچ لا گھسائی تھی اور اب صورتحال یہ ہو چکی تھی کہ پیدل چلنے کا راستہ بھی مفقود تھا یعنی کہ صورتحال بڑی نازک تھی۔ حسن ظن ہے کہ مسجد ہذٰا کے عالم و فاضل صاحب نے اپنے نمازیوں کو یہ تو بتا رکھا ہو گا کہ نماز کی ادائیگی کے لئے وقت کی پابندی کرنی چاہئیے لیکن شاید وہ یہ بتانا بھول چکے تھے کہ وقت پر نماز ادا کرنے سے بھی زیادہ ضروری راستے کے حقوق ہیں اور کسی انسان کے لیے آسانی پیدا کرنا اور اس کی تکلیف کا باعث نہ بننا ایک نماز سے بھی زیادہ ضروری اور افضل کام ہے۔

لوگو! جان رکھو میں یہاں حسن ظن سے کام چلا رہا ہوں ورنہ غلط گمان کرنے بیٹھوں تو بات بہت دور تلک جائے۔

بہرحال، میں نے بجائے مسجد میں موجود صاحب موٹر سائیکل کو بلانے کے، پاس کھڑے ایک لڑکے کو مدد کے لئے پکارا کیوں کہ میرا خدشہ تھا اگر میں نے صاحب موٹرسائیکل سے راستے کے حقوق کی درخواست کی تو کہیں علماء کرام کی خود ساختہ تعزیرات کی رو سے عبادت میں خلل کے جرم میں مجھے گمراہ اور گستاخ نہ قرار دے دیا جائے۔

جناب من! ڈرنے میں ہی بہادری ہے۔ کیا آپ کو نہیں پتا شہر کا شہر مسلمان ہوا پڑا ہے۔

خیر اس نوجوان نے موٹر سائیکل خالی گلی کے ایک دوسرے کونے میں کھڑی کر دی اور یوں ہمارا راستہ صاف ہوا۔ اور میں جو کہ پہلے بچوں کی برین واشنگ کے حوالے سے ندامت محسوس کر رہا تھا اب سوچ رہا تھا کہ میں نے واقعی انہیں درست طور پر گائیڈ کیا ہے۔

اور لوگ آپ سے ملالہ کے بارے میں پوچھتے ہیں ان سے کہیے کہ جب آپ فرض کر لیتے ہیں وہ یہود و نصاریٰ کی ایجنٹ ہے تو پھر کیا آپ اس سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ آپ کو اسلام کے پانچ ارکان کی تعلیم دے گی۔ الٹا آپ ان سے سوال کیجیے کہ تم لوگ یہ ڈرامے بازیاں کیسے کر لیتے ہو۔