1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احمد الراعی/
  4. منزل

منزل

لفظ "سفر" سنتے ہی انسان کسی اندیکھی منزل کا تعین کر بیٹھتا ہے۔ اور اگر سفر بنا کسی منزل کے ہو تو وہ بیکار سی جدوجہد کہلاتی ہے۔

اور یہی جدوجہد ہم گزشتہ چار دہایوں سے کیے جارہے ہیں۔ اور ہمارے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے اس جدوجہد میں ہمارے رہنما بھی سمت کا تعین کرنے سے قاصر ہیں۔

اک ہجوم سا ہے اور ہجوم بھی ایسا جو دیکھا دیکھی بس چلا جارہا ہے۔ اکثر سوچتا ہوں کہہ ہماری منزل کھو گئی ہے یا ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

منزل کے حصول کے لیے بہت ہی ضروری چیز اسباب کا ہونا ہے، اور اس قافلے کا مال و اسباب، تعلیم، صحت، بنیادی حقوق اور آزادی رائے یہ ہم سے لوٹ لیے گئے۔

سفر کٹھن تھا مگر سہل کر دیا اس نے

جو شخص لوٹ کر اسباب لے گیا میرا

بغیر سمت اور اسباب کے منزل کی تلاش گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ دشوار سے ناممکن مراحل میں داخل ہوتی جارہی ہے۔ اور ہم آج بھی بجائے کچھ وقت ٹھہر کر یہ سوچ لیں کہ پہلا مرحلہ انتخاب کا ہے جو ٹھیک ہونا چاہیے۔ ہم آج بھی آؤے ای آؤے اور جاؤے ای جاؤے کے نعروں میں منزل تلاش کر رہے ہیں۔ اگر یہی طرز انتخاب رہا تو ہم آگے بڑھنے کی خوش فہمی میں پتھر کے دور میں جا پہنچیں گے۔ پتھر کے دور میں تو ہم جی رہے ہیں، جہاں خود غرضی کے بڑے بڑے گدوں نے ہماری روایات کی آلائیشیں تک نوچ پھینکی ہیں مگر ہم ماضی میں زندہ ہیں ہمیں منزل کے کھو جانے کا ملال نہیں ہم ماضی کے قصوں سے جی بہلاتے ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد نے یہ کر دیا وہ کر دیا ہم ماضی کے خوابوں سے بیدار ہوتے ہیں تو رہنماؤں کے میجک شوز میں تسکین حاصل کرتے ہیں یہ قافلہ یوں ہی پڑاؤ ڈالے بیٹھا رہے گا جب یہ قافلہ زرا سا بھی حرکت کرنے کا سوچتا ہے تو تبدیلی کا نیا میجک شو شروع کر دیا جاتا ہے تبدیلی کے نام پر اس قافلے کو کئی بار رسوا کیا گیا۔ دکھ رسوا کرنے والوں پر نہیں آنسو رسوا ہونے والوں کی سادگی یا ڈھٹائی پر نکلتے ہیں کہ اب بھی ہجوم جمع ہوتے ہیں اور میدان سجتے ہیں تماشے ہوتے رہے ہیں ہوتے رہیں گے۔ آخر کب تک یہ قافلہ ان ہی تماشوں سے بیدار ہوکر اپنا بھولا ہوا سفر شروع کرے گا۔ ۔ ۔ ۔

زندگی اب کی بار میرا نام نا شامل کرنا

گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہو گا