1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احمد الراعی/
  4. سلیمانی ٹوپی

سلیمانی ٹوپی

نون لیگ کا اترا ہوا چہرا اور پی ٹی آئی کا پاور پلے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کے کوئی تیسری قوت بھی ہے جو تمام تر سیاسی تغیرات کا باعث ہے۔ یہ دونوں جماعتیں گزشتہ کچھ وقت سے کسی تیسری قوت کی باتیں کرتی رہی ہیں۔ پی ٹی آئی چئیر مین جناب عمران خان صاحب کی گاہے بگاہے پیش گوئیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب نے تو اپنی تقریر میں یہ تک کہا کہہ" ہمارا مقابلہ نہ تو پی ٹی آئی سے ہے اور نہ ہی پی پی پی سے ہمارا مقابلہ ایک خلائی مخلوق سے ہے"

یہ خلائی مخلوق کون ہے اور سیاسی اتار چڑھاؤ میں اس مخلوق کا کیا کردار ہے؟

میاں صاحب کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے جیسی ایلن وڈ اپنی ایک فلسفیاتی کتاب میں وقت کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ" اگر کوئی مجھ سے پوچھے کے وقت کیا ہے؟ تو میں نہیں جانتا کہ وقت کیا ہے؟ اور اگر کوئی مجھ سے نا پوچھے کہ وقت کیا ہے تو میں اچھے سے جانتا ہوں کہ وقت کیا ہے۔ تو میاں صاحب بھی اچھے سے جانتے ہیں کے وہ خلائی مخلوق کون ہے۔ اور ہمارے سیاسی قائدین بھی بہت اچھے سے جانتے ہیں مگر کہے کون؟

مجھے خبر ہے محبت کے سب ٹھکانوں کی

شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

ہماری روایتی سیاست اس وقت جس قدر الجھاؤ اور سلجھاؤ کے تانے بانے میں ہے یہ آج کا قصہ نہیں یہ نظام بس چلتا جارہا ہے تعمیر سے کوسوں دور ہم لوگ تخریب کی دلدل میں دھنس چکے اور دھنستے چلے جارہے ہیں۔

کسی بھی ریاست کو مضبوط بنانے کے لیے کم از کم چار چیزوں کا مضبوط ہونا لازم ہے۔ جن میں افواج، حکومت، عدل اور تعلیم ہیں۔ تعلیم نے سلیمانی ٹوپی ایسی پہنی ہے کے وہ نظر نہیں آتی ہماری تعلیم نے بہت بڑے بڑے لوگ پیدا کیے ہیں مگر ہماری آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے۔

حکومتیں اپنے کیے کو چھپانے کے لیے سلیمانی ٹوپی پہن چکی ہے۔

عدل کا اندازہ بھی ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں کیسیز کی فائلز موجود ہیں مگر عادل نجانے کہاں ہیں؟

افواج ان کو اللہ سلامت رکھے کے کم از کم بیرونی معملات کو سنبھالے ہوئے ہیں اندرونی کی خیر ہے کیوں کے ہم زندہ ہجوم ہیں۔ اور اندرونی معاملات بھی ٪75 تک تو دیکھ ہی رہے ہیں باقی حکومتوں کا بھی کچھ حق بنتا ہے۔

رہی نون لیگ کی بات تو میاں صاحب سے جانے انجانے میں ایسی کیا غلطی ہوئی کہ وہ آج اس نوبت کو پہنچے۔

پاکستان کے پورے جمہوری دور کو طلسماتی دور سے تفریق کیا جائے تو اعداوشمار سے واضح ہوجاتا ہے کے پاکستان میں سب سے زیادہ حکومت کونسی رہی۔

یہ سلیمانی ٹوپی کسی قوت نے پہنی ہوئی ہے یا 23 کروڑ عوام کو پہنائی جاتی رہی ہے کہ ہم آج تک کبھی اپنے بنیادی حق کے لیے جمع نہ ہوئے آج تک یہ عوام نجانے کس انہونی کے انتظار میں بیٹھی ہے اور کیوں بیٹھی ہے؟ جب قومیں ذاتی مفاد کو چھوڑ کر اجتماعی مفاد کے خواب دیکھنے لگ جاتی ہیں تو تبدیلی کا سورج نمودار ہوتا ہے۔ مگر ہم اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینا پسند کرنے والا ہجوم ہیں قوم نہیں۔ جب ہم ہی ایک ہجوم ہیں تو پھر یہ سلیمانی ٹوپی پہنی قوتیں ہی منڈلاتی رہیں گی۔

سندھی میں ایک کہاوت ہے کے " پھاسن کھن پو پھدکن کہیڑو"