1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احمد الراعی/
  4. بھٹو کے نام

بھٹو کے نام

منجانب احمد الراعی

بنام: ذولفقار علی بھٹو۔

تسلیمات:

قوی امید کرتا ہوں کہ صبا نسیم کے ٹھنڈے جھونکوں میں آرام ہی کر رہئے ہونگے۔ اس خوبصورت زندگی میں اتنے محو ہوئے کہ پلٹ کہ خبر ہی نہ لی کے یہ قوم جو کبھی قوم ہوا کرتی تھی کس کسمپرسی میں جی رہی ہے۔ جنہیں آپ برملا کہا کرتے تھے کہ" بھٹو تمھارا ہے اور تم بھٹو کے" بس آج اس غرض سے قلم اٹھایا کے آپ کو موجودہ حالات سے آگاہ کر سکوں کہ آپ کے بعد یہ سالوں پر محیت وقت کیسے گزرا اور گزر رہا ہے۔

گو میرے ہوش سنبھالنے تک آپ جا چکے تھے مگر جوں جوں آپ کے بارے میں پڑھا آپ سے ایک تعلق سا بنتا چلا گیا۔ وقت کو کوسنا فضول ہے کہ آپ کو دیکھ نہ سکا مگر دلی طور پر آپ سے شناسائی ہے۔ اور اس تعلق کی بنا پر آج آپ سے مخاطب ہوں۔

بتانا یہ تھا کہ جو پاکستان آپ چھوڑ کر آئے تھے وہ یکسر بدل چکا ہے۔ آپ کی سوچ تو بہت پرے آپ کے کہے گئے الفاظ تک کو سمجھنے والا بھی دور دور تک نہیں ملتا۔

یاد ہوگا آپ نے ایک بار کہا تھا کہ " ہم گھاس کھا لیں گے بھوکے رہ لیں گے مگر پاکستان کے دفاع کو ضرور مضبوط بنائیں گے" آج ہم اپنا دفاع اللہ کے فضل سے بہت مضبوط کر چکے تو بھوکے رہنے کا جومسئلہ تھا وہ تو اختتام کو پہنچا اب ہم اتنا سیر ہو کر کھاتے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں اور کھا چکنے کے باوجود اتنا بچ جاتا ہے کے بیرون ملک رکھنا پڑتا ہے۔ ہمارے ملکی بینکوں میں تو اتنی جگہ بھی میسر نہیں کہ حکمرانوں کا پیسہ رکھ سکیں۔ میں جلد ہی بانی پاکستان جناب قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی ایک خط لکھوں گا اور اور ان سے شکوہ کروں گا کہ چھوٹا ملک حاصل کیا جس کی وجہ سے آج حکمرانوں کو بہت پریشانی لاحق ہے کے بیچارے خود تو یہاں رہتے ہیں مگر اپنا پیسہ بیرون ملک رکھنا پڑتا ہے۔ خیر دفاع تو مضبوط ہوگیا مگر اب تک یہ معلوم نہیں ہو پا رہا کہ ہمیں خطرہ اندر سے ہے یا باہر سے۔ اتنا نقصان تو باہر والوں نے نہیں کیا جتنا ہم اند ہی اندر کر چکے۔

آپ کی یاد داشت کے بارے میں پڑھ کر حیرانگی ہوئی کے آپ کو پوری پوری فائلیں یاد ہوا کرتیں تھیں مگر ہمارے سابق وزیر داخلہ کو تو "ثناء " بھی یاد نہیں رہتی۔

کسان آپ کو بہت یاد کرتے ہیں اور بہت سلام دیتے ہیں۔ کسانوں سے یاد آیا جن کسانوں کو آپ نے زمینیں دیں تھیں اور جاگیرداری کا خاتمہ کیا تھا۔ اب کافی حد تک تو ان کسانوں سے زمینیں واپس لی جا چکی ہیں اور جن سے نہیں لیں ان کو اب پانی نہیں ملتا سنا ہے اب پانی بھی چوری ہونے لگا ہے۔ وہ کھیت جو سونا اگلتے تھے آج ان کھیتوں میں دھول اڑتی ہے۔

مزدور، محنت کش اور غریب جن کو آپ اپنے بازو کہا کرتے تھے وہ بازو آج دو وقت کی روٹی اور صاف پانی کے حصول کی خاطر شل ہو چکے ہیں۔

آپ کے اصل وارث تو نجانے کہاں گم ہیں مگر آپ کے نام نہاد وارثوں نے غریب کے لیے سندھ کی زمین تنگ کر دی ہے۔ اور سندھ کے مختلف شہروں کو تو پھر سے زمانہ قدیم میں دھکیل دیا ہے جہاں نہ پانی، بجلی، گیس، ہسپتال اور تعلیم جیسی سہولیتں میسر ہیں۔ سندھ کی تعلیم کا تو یہ حال ہے کے دل چاہتا ہے پہلے استادوں کو پڑھنے کی ضرورت ہے مگر مسلسل بھرتیاں ہوتی ہیں۔ بچے جنہوں نے پڑھنا تھا آج وہ جلسے جلسوں میں گانے گاتے ہیں جشن کا سا سماء ہے۔ اس قوم کی زندہ دلی کے کیا کیا واقعات لکھوں کہ اس کو بالکل پرواہ نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کب سے ہو رہا ہے۔

بیرونی معاملات کا کیا زکر کرنا کشمیر آج بھی جل رہا ہے۔ ہاں مگر ہم یوم یکجہتی کشمیر کی چھٹی پابندی سے کرتے ہیں۔ چھٹیوں کے معاملات کو ہم سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکا۔

وہ ہی وائٹ ہاوس جو کبھی آپ کے جوتے کے نیچے ہوا کرتا تھا آج وہاں ہماری قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں۔

یو این سیکیورٹی کونسل جہاں سے آپ ایجنڈا پھاڑ کر احتجاج میں اٹھ کر چلے آئے تھے وہاں ہم آج دمیں ہلاتے پھرتے ہیں۔

سنا کہ آپ کو آپ کے بہت سارے ساتھیوں نے آرمی، جاگیرداری نظام، صعنت کاروں سے سمجوتہ کرنے کو کہا تھا۔ اور آپ نے کہا تھا کہ اگر میں نے بھی سمجھوتہ کر لیا تو میرے ملک کے مزدور، غریب، کسان کا سہارا کون ہوگا۔

اب سمجھوتہ تو بہت چھوٹا لفظ ہے ہم اب اس کو جوڑ توڑ کا نام دیتے ہیں سمجھوتہ تو ہم نے ایکسپریکس میں ہی بھیج دیا تھا۔

ابھی بہت کچھ کہنا ہے پھر زحمت دوں گا۔

دعا گو