1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. جیسا شیشہ ویسا منظر

جیسا شیشہ ویسا منظر

گفتگو کی لڑی کے شروع میں دو کہانیاں پرونا چاہتا ہوں۔

ایک آدمی کسی گاوں میں آیا اور وہاں کے ایک معزز بزرگ سے گاوں اور گاوں کے لوگوں کے بارے میں پوچھنے لگا۔ بزرگ نے آدمی سے پوچھا۔ "تم جہاں سے آئے ہو وہ کیسا گاوں ہے اور وہاں کے لوگ کیسے ہیں؟" آدمی لولا:" میں جہاں سے آیا ہوں، وہ بہت گندہ گاوں ہے، وہاں کے لوگ ہر وقت جہالت اور فرسودہ روایات کا لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں۔ میں اپنا گاوں چھوڑ کے کسی اور گاوں میں چلے جانے کا سوچ رہا ہوں، اس لئے آپ کے گاوں کے بارے میں دریافت کر رہا ہوں"۔ بزرگ بولے۔ " یہ گاوں بھی آپ کے گاوں جیسا ہی ہے۔ یہاں بھی وہ سب کچھ موجود ہے جو آپ چھوڑنا چاہتے ہیں"۔ آدمی چلا کیا۔ کچھ دنوں بعد ایک اور آدمی اسی بزرگ کے پاس آیا اور پہلے آدمی کی طرح گاوں کے بار ے میں دریافت کرنے لگا۔ بزرگ نے اس آدمی سے بھی وہی سوال پوچھا۔ "تم جہاں سے آئے ہو وہ کیسا گاوں ہے اور وہاں کے لوگ کیسے ہیں"۔ آدمی بولا۔ "گاوں بہت سر سبز اور خوبصورت ہے، کھیتوں میں سے پانی کی نہر گزرتی ہے۔ گاوں کے لوگ خوبصورت روایات کے پاسبان ہیں۔ لیکن میں کسی ذاتی وجوہات کی وجہ سے کسی دوسرے گاوں میں منتقل ہونا چاہتا ہوں"۔ بزرگ مسکرائے اور خوشی سے بولے۔ "یہ گاوں بھی ویسا ہی ہے جیسا گاوں آپ چھوڑنا چاہتے ہیں"۔

ایک بابا جی مریدوں کے ساتھ اپنے ڈیرے پر بیٹھے گیان بانٹ رہے تھے۔ ایک آدمی آیا اور بابا جی کو برا کہنا شروع کر دیا۔ بابا جی خاموشی اور تحمل سے اس کے لہجے اور اس کی باتوں کو سنتے اور برداشت کرتے رہے۔ آدمی دل کی بھڑاس نکال کر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک اور آدمی آیا اور بابا جی کے سامنے احترام سے بیٹھ گیا، باباجی کو خوبصورت خراج تحسین پیش کرنے لگا، بہت دیر تک وہ بابا جی کی تعریفیں کرتا رہا۔ بابا جی اس کی باتوں کو بھی خاموشی اور مسکراہٹ کے ساتھ سنتے رہے۔ جب دوسراآدمی بھی چلا گیا تو ایک مرید نے متجسس انداز میں بابا جی سے پوچھا۔ " بابا جی پہلے والے آدمی نے آپ کو بہت برا کہا اور دوسرے آدمی نے آپ کو اچھا کہا، آپ دونوں کی کڑوی اور میٹھی باتیں سنتے رہے۔ یہ سب کیا تھا؟"۔ بابوں نے فلسفہ زندگی کو ایتھنز کے فلاسفروں سے یا فلاسفی کی کتابوں سے نہیں سیکھا ہوتا۔ انہون نے زندگی کی ایسی کتاب سے زندگی کے فلسفے پڑھے ہوتے ہیں جن کو پڑھنے کے لئے خاص طرح کا شعور اور خاص طرح کی آنکھ چاہیے ہوتی ہے۔ بابا جی نے فرمایا: میری شخصیت آئینہ کی طرح ہے پہلے آدمی آیا اس نے مجھ میں خود کو دیکھا اور خود کو ہی براکہا، اسی طرح دوسرے آدمی نے بھی مجھ میں خود کو دیکھا اور خود کو اچھا کہا۔ دونوں میں سے کسی نے مجھے برا اور اچھا نہیں کہا۔ دونوں نے آئینہ میں اپنے اندر کی خوبصورتی اور بد صورتی کو دیکھا ہے اور اسکا اظہار کیا۔

دونوں کہانیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک تجربہ کیجئے۔ کسی بھی دن کوئی بھی قصہ یا واقعہ چند لوگوں کو سنائیںِِِِِِِ، اسکے بعد ان سے اس واقعے کے بارے میں ان کی رائے دریافت کریں۔ چند لمحوں میں آپ کو ان لوگوں کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہو جائے گا۔ بہت سارے کرداروں کے پیچھے چھپے حقیقی چہرے آپ کو دکھائی دینے لگیں گے۔ بہت سارے پردے ہٹ جائیں گے۔ کچھ لوگ منفی واقعات کو بھی مثبت رنگ میں ڈھال دیتے ہیں اور کچھ لوگ مثبت واقعے کو بھی منفی رنگ کی چادر سے ڈھانپ دیتے ہیں۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ مکھی انتہائی خوبصورت بدن کو چھوڑ کر گند سے رستے زخم پر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔ یوں سمجھیں کچھ لوگ میٹھے کی طرح ہوتے ہیں جو پانی میں مل کر پانی کو میٹھا کر دیتے ہیں، دودھ میں مل کر دودھ کو میٹھا کردیتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں کا رویہ اس کے بالکل متضاد ہوتاہے۔ وہ زہر کی طرح ہوتے ہیں، اپنے اندر کے زہر سے ہر چیز کو زہریلا کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ذہن کی جیسی پروگرامنگ ہوئی ہوگی ہم ہر خیال کو، ہر بات کو، ہر قصے کو اسی تناظر میں دیکھں گے، ہر خیال کو، ہر بات کو پروگرامنگ کے مطابق ڈھال دیتے ہیں۔ آپ نے جس رنگ کی عینک پہنی ہو گی، اردگرد کا ہر منظر، ہر چہرہ اسی رنگ میں نظر آئے گا۔ آپ جیسے خود ہوں گے دنیا آپ کے لئے بالکل اسی طرح ہوگی۔ جس رنگ کے شیشوں کے پیچھے جائیں گے، اردگرد کے منظر اسی رنگ میں آپکو دکھائی دیں گے۔