1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. اچھا آدمی تھا

اچھا آدمی تھا

کچھ دن پہلے نظر سے بہت خوبصورت فقرہ گزرا۔ یہ فقرہ پڑھنے کے بعد بہت دیر تک سوچوں کے بھنور میں گھومتا رہا، بہت سارے لوگ، بہت سارے چہرے، بہت سارے کردار، بہت سار ے واقعات نظر کے سامنے آتے رہے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے میں وہ فقرہ بیان کر رہا ہوں۔

"بہت اچھا آدمی تھا۔ یہ سننے کے لئے آپ کو مرنا پڑتا ہے"۔

ہم نے اس فقرے میں سے "ہے" کا لفظ نکا ل کر انتہائی خوبصورتی کے ساتھ "تھا" کا لفظ جوڑ دیا ہے۔ ہمیں یہ فقرہ "تھا" کے ساتھ کثرت سے سننے کو ملتا ہے خصوصاً جنازے کو موقع پر، لیکن افسوس یہ فقرہ "ہے" کے ساتھ بہت کم ہماری سماعتوں تک پہنچ پاتا ہے۔ اس فقرے کے دو مختلف پہلو ہیں۔ دونوں پہلووں کو ہم اپنی ذات سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم یہ فقرہ کسی اور شخص کے لئے استعمال کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم لوگوں سے اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے بارے میں اس فقرے کا کثرت کے ساتھ استعمال کرے۔ خصوصاً اس محفل میں جہاں ہم موجود نہ ہوں۔

یہ ایک انسانی المیہ ہے کہ اگر ہمارے سامنے دو مختلف رائے، ایک منفی اور دوسری مثبت موجود ہوں کسی بھی شخص یا کسی بھی کردار کے حوالے سے، تو بلا اختیار ہمار ا خیال منفی رائے کی طرف جاتاہے، کیونکہ منفی رائے سےمحفل میں رنگ بھرے جاسکتے ہیں اور جتنی داد ہم منفی رائے دے کر سمیٹ سکتے ہیں اتنی یقیناً مثبت رائے دے کر سمیٹنا ممکن نہیں ہے۔ مگر اس بات کا احساس ہمیں اس شخص کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہوتا ہے، وہی انسان جو ہم سے بچھڑنے کے بعد ہمیں بہت اچھا لگنے لگتا ہے، وہ شخص جس کے بچھڑنے پر کئی دن تک ہماری آنکھیں آنسووں سے تر رہتی ہیں، وہ لوگ جن کے جنازے پر ہم ان کے بارے میں بول رہے ہوتے ہٰیں " اچھا ادمی تھا"۔ انہی لوگوں کی زندگی میں ہم ان کی اچھائیوں کو، ان کی خوبیوں کونظر انداز کر کے ان کی بے قدری کرتے رہتے ہیں اور ان کے چلے جانے کے بعد اس کے بارےمیں بول رہے ہوتے ہیں کہ ۔ ہمارا عمومی رویہ یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کی مثبت باتوں کو نظر انداز کر کے ان کی شخصیت کے منفی پہلووں کو نمایاں کرتے رہتےہیں۔ یہ ایک پہلو ہے جس کا بہت آسان حل ہے۔ کیونکہ اسکا تعلق براہ راست ہمارے ساتھ ہے، ہماری گفتگو کے ساتھ ہے اس لئے ہم صرف ایک ارادہ کر کے اس پہلو کو روشن کر سکتے ہیں کہ ہمارے زبان سے اگر کبھی کسی کے لئے کچھ کلمات نکلیں گے تو وہ اچھے کلمات ہی ہوں گے۔

دوسرا اور انتہائی اہم پہلویہ ہے کہ ہم اپنے ہر کام میں اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں، ہمارے ہر ٖفیصلے، ہرارادے کے پیچھے یہ سوچ کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتی ہے کہ لوگوں کا اس پر کیا ردعمل ہوگا؟۔ لوگوں کی اس کے بارے میں کیا رائے ہو گی؟۔ لوگ اس عمل کو اچھا سمجھیں گے یا برا سمجھیں گے؟ اگر برا سمجھیں گے تو کیوں؟ اور اس سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟۔ لیکن ان سب سوچوں، کوششوں کے باوجود، بہت احتیاط کرنے کے باوجود، اپنی خواہشوں کو بھینٹ چڑھانے کوباوجود ہم یہ چند الفاظ سننے کو ترستے رہتے ہیں۔ لوگوں کو پھر بھی ہم میں کوتاہیاں نظر آتی ہیں، صرف ہماری برائیاں ہی ان کی یاداشت کا حصہ بنی رہتی ہیں۔ ہم اگر تاریخ کا تھورا سا جائزہ لیں۔ تو محسوس ہوگا کہ ہم نے ہر گوہر نایاب کو کھونے کے بعد پہچانا۔ ہماری اسلامی تاریخ کے وہ بڑے بڑے سپہ سالار، جو آج ہمارے رول ماڈل ہیں، جن کا ذکر کرتے وقت ہماری چھاتی چوڑی ہو جاتی ہے، جن کا تذکرہ ہم اپنے نصاب میں بھی فخریہ انداز میں کرتے ہیں، ہمارے وہ ہیرو اپنی زندگی میں کتنی تکلیفیں برداشت کرتے رہے ہیں، لوگوں کی کیسی کیسی باتیں ان کو سننا پڑیں۔ اردو ادب کے ممتاز نام کس طرح زندگی کے خوفناک چہرے کو دیکھتے رہے۔ مرزا غالب کا جب انتقال ہوا تو وہ تیرہ روپے کے مقروض تھے۔ وہ مرزا غالب جن کی شاعری محفلوں میں رنگ بھردیتی ہے۔ جن کو آج کے سخن شناس اردو شاعری کے سب سے اونچے مرتبے پر فائز کرتے ہیں۔ انہوں نے کتنی مشکل زندگی گزاری، لوگوں نے اگر ان کی قدر کی ہوتی تو وہ مالی لحاظ سے اچھی زندگی گزار کر جہان فانی سے کوچ کرتے۔ فیض احمد فیض زندگی کے کتنے قیمتی سال پابند سلاسل رہے۔ حبیب جالب نے کتنی تکلیفیں اور کتنی اذیت ناک باتیں سنی۔ تاریخ بھری پڑی ہے ایسی تلخ حقیقتوں سے۔ سرسید احمد خاں کو لوگوں نے پتھر بھی مارے اور ذلیل بھی کیا۔ لیکن ان کی مسلمانوں کے لئے تڑپ اور لگن کی قدر آج ہمیں محسوس ہوتی ہے۔ اگر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ لوگوں نے اتنے بڑے بڑے لوگوں کواپنی زندگی میں نہیں پہچانا، اتنے بڑے بڑے لوگوں کو برا بھلا کہا تو ہم کس گنتی میں آتے ہیں، لوگ اگر زندگی میں ہمارے قدر نہیں کرتے یا ہمیں برا بھلا کہتےہیں تو یہ ان کا اپنا فعل ہے۔ اور لوگوں کے فعل پر ہمارا کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس لئے یہ فکر اور یہ خواہش ہمیشہ کے لئے اپنے دماغ سے نکال دیں کہ لوگ آپ کی زندگی میں آپ کو اچھا کہیں گے۔ خصوصاً اپنے کسی کام کو بھی اس نیت سے نہ کریں کہ اس کام کے بعد لوگوں کی اچھی رائے سننے کو ملے گی۔

انسان بیک وقت اچھائی اور برائی کا دونوں کا مرکب ہے۔ اس میں برائیوں کے ساتھ ساتھ اچھائیاں بھی موجود ہوتیں ہیں۔ اس لئے لوگوں کی اچھائیوں پر توجہ دیں اور ان کی برائیوں کو اس امید سے صرف نظر کریں کہ اس طرح اللہ تعالی آپ کی برائیوں کو معاف کر کے ان کو لوگوں پوشدہ رکھے گا۔ اس فقرے کو ابھی سے بدل دیں اور "ہے" کے ساتھ اسکا کثرت سے استعمال شروع کر دیں۔ اس طرح آپ کی برے لوگوں کے بارےمیں بھی رائے بدل جائے گی اور آپ اپنی نظر، اپنی عدالت میں سرخرو ہو تے رہیں گے۔