1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. جو دو گے وہی ملے گا۔

جو دو گے وہی ملے گا۔

گریجویشن میں انگریزی کے ایک پروفیسر ہوا کرتے تھے۔ وہ انتہائی پر کشش شخصیت کے مالک تھے۔ کچھ لوگ ہمیں زندگی میں ایسے بھی ملتے ہیں جن کی عزت کرنے کو خود ہی جی چاہتا ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں برا سوچنے کا تصور بھی نہیں کیا سکتا۔ ایسے خوبصورت لوگوں کی وہ لوگ بھی عزت کرتے ہیں جو عموماً اس لفظ "عزت" کی وقتاً فوقتاً عزت اتارتے رہتے ہیں۔ میں نے تقریباً ہر کسی کوپروفیسر صاحب کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کرتے ہی دیکھا۔ میں نے یہاں تقریباً کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ سب لوگ کبھی بھی آپ سے خوش نہیں ہو سکتے، سب لوگ کبھی بھی آپ کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار نہیں کر سکتے۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی بھی آپ کا مخالف نہ ہو۔ سیانے کہا کرتے ہیں: " اگر آپ کسی جگہ کام کرتے ہیں اور تمام لوگ آپ سے خوش ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ آپ اپنا کام ایمانداری اور خلوص سے نہیں کر رہے"۔ اگر آپ اپنا کام مکمل ایمانداری اور خلوص سے کر رہے ہیں تو یہ عملی طور پر ممکن ہی نہیں کہ تمام لوگ آپ سے خوش ہو جائیں اور تمام لوگوں کی آپ کے بارے میں اچھی رائےقائم ہو جائے۔ اس لئے کچھ لوگوں کو چھوڑ کر باقی تمام لوگ پروفیسر صاحب کی بہت عزت کیا کرتے تھے اور ان کے بارے میں بہت اچھی گفتگو کیاکرتے تھے۔ میں نے ایک دن پروفیسر صاحب سے اس بارے میں پوچھ لیا کہ لوگ آپ کے بار ے میں اتنی اچھی رائے رکھتے ہیں، سب لوگ آپ کی عزت کرتے ہیں اور انتہائی احترام سے ملتے ہیں اس کا کیا راز ہے۔ وہ انتہائی خوبصورت انداز میں مسکرائے اور مجھے بائبل کی ایک آیت سنائی جس میں میرے سوال کا مکمل جواب موجود تھا۔ آیت کا مفہوم اس طرح سے ہے۔

"دوسروں کے ساتھ ویسا رویہ ہی رکھو، جیسے رویے کی آپ دوسروں سے اپنے لئے امید رکھتے ہیں"۔ (Book of Luke 6:31، Book of Mathew 7:12)

ہمارا معاشرے میں عمومی رویہ یہ ہوتا ہے کہ ہم خود لوگوں کی نہ عزت کرتے ہیں، نہ ان کا احترام کرتے ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں نہ ہی ان کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس ہم انہی لوگوں سے عزت، احترام اور اچھی رائے کی لمبی لمبی امیدیں باندھے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے میں کسی کو گالی دے کر، کسی کو ذلیل کر کے اس سے یہ امید رکھوں کہ وہ میرے بارے میں اچھی رائے رکھے یا میری عزت اور میرا احترام کرے۔ اگر ایساممکن بھی ہوگیا اور کسی ایسے شخص نے جس کو میں نے ذلیل کیا ہوگا یا گالی دی ہوگی کسی دباو میں آکر میرے سامنے میری عزت اور میرا احترام کر بھی لیا تو یہ احترام اوریہ عزت صرف ظاہری ہو گی۔ میری ٖغیر موجودگی میں وہ مجھے انہی القابات سے نوازے گا جن سے میں نے اس کی عزت افرائی کی تھی یا اس کی میرے بارے میں وہی رائے ہو گی جو میری اس کے بارے میں تھی۔ یہ قدرت کا بہت سادہ قانون ہے، لیکن افسوس ہم اس سے بھی بے خبر ہو گئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں والدین ہر طرح سے اولاد کو ذلیل کرتے ہیں، ہمارے سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ سب کے سامنے طالب علموں کی عزت افزائی کرنے کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں، ہمارے علماء حضرات سرے عام ممبر پر بیٹھ کر دوسروں کو کیسے کیسے القابات سے نوازتے ہیں اور اس کے بعد ہمارے والدین، اساتذہ ہر وقت اس کی شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کی عزت نہیں کرتی، ان کے شاگرد ان کا احترام نہیں کرتے۔ ہمارا رویہ ایساہے کہ ہم کانٹوں کو زمین میں بو کر گندم کی سنہری فصل کاشت کرنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں، ہم پاتال میں جانے والے راستے کا مسافر بن کر عروج تک پہنچنے کی امید کرتے رہتے ہیں، ہم پھونکوں سے دیے بجھا کر روشنی کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ہم بھی بہت بھولے بادشاہ ہیں۔

میں نے اس آیت کو اپنی زندگی کے ہر شعبے میں آزمایہ ہے اور مجھے بہت حیران کن نتائج ملے ہیں۔ آپ بھی قدرت کے اس سادے سے قانون کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، ہر کسی کو عزت اور احترام دیں، ہر کسی کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کریں، ہر کسی کے بارے میں اچھا سوچیں۔ وہ لوگ بھی آپ کی عزت کریں گے جو کسی کی عزت نہیں کرتے، وہ لوگ بھی آپ کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کریں گے جن کے منہ کو غیبت کی نشہ لگ چکا ہوتاہے۔