1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. پرانے زخموں کے نئے درد

پرانے زخموں کے نئے درد

اشفاق احمد نے بابا صاحبا میں بہت خوبصورت واقعہ بیان کیا ہے۔ ناجانے کیوں اچانک یہ کہانی یاد آگئی۔

ایک نوجوان ہسپتال میں اس حالت میں آیا کہ اسکی ٹانگ دو تین جگہوں سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے اسکا معائنہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔ "تمہاری ٹانگ کب ٹوٹی؟"۔ نوجوان نے کہا۔ " پندرہ سال پہلے"۔ ڈاکٹر نے حیرت سے اپنا سوال دہراتے ہوئے کہا۔ "میں پوچھ رہا ہوں اپکی ٹانگ کب ٹوٹی"۔ نوجوان نے اس بار بھی وہی جواب دیا، وہ کہنے لگا۔ ٹانگ پندرہ سال پہلے ٹوٹی تھی، حادثہ پندرہ سال پہلے ہوا تھا لیکن درد آج محسوس ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر نے وضاحت طلب نظروں سے نوجوان کی طرف دیکھا۔ نوجوان ڈاکٹر کے تجسس کو بھانپ گیا اور اپنی کہانی سنانا شروع کی۔ " پندرہ سال پہلے میں ایک کمپنی کے نمائندے کی حیثیت سے امریکہ کی ریاست میں مصنوعات کے آرڈر بک کرنے کیا۔ یہ میرا بہت کامیاب سفر تھا، میں بہت تیزی سے آرڈر بک کر رہا تھا اور مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ میرے کمیشن کی رقم میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ میرا ویزہ ختم ہو گیا تھا لیکن کمپنی نے مجھے مزید رکنے کا عندیہ دے دیا۔ ایک شام میں کسی گاوں سے بہت سارے آرڈر بک کر کے واپس آرہا تھا کہ اچانک بارش شروع ہو گئی۔ باہر سردی شدید تھی۔ تھوری دیر بعد برفباری بھی شروع ہو گئی۔ برف اتنی تیزی سے گاڑی کی فرنٹ سکرین پر گر رہی تھی کہ مجھےفرنٹ سکرین ٹوٹنے کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ تھورا دور جانے کے بعد مجھے ایک گھر نظر آیا، جس کی بتیاں جل رہی تھیں۔ میں اس گھر کی طرف چلنے لگا۔ گاڑی درخت کے نیچے کھڑی کر کے میں نے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ ایک بوڑھا آدمی باہر آیا تو میں نے سارا ماجرہ بیان کیا۔ اسنے کہا گھرمیں کوئی کمرہ خالی تو نہیں ہے لیکن گیراج میں ایک کمرہ بنا ہوا ہے آپ جب تک چاہیں اس میں رہ سکتے ہیں۔ میں نے خوشی سے حامی بھر لی۔ گیراج والا کمرہ رہنے کے لئے شاندار کمرہ تھا۔ اس میں بستر اور ضرورت کی دوسری تمام اشیاء موجود تھیں۔ بوڑھے آدمی نے مجھے کھانا لا دیا۔ کھانا کھانے کے بعد میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ رات کے پچھلے پہر اس بزرگ کی جواں سال بیٹی میرے کمرے میں آئی اور میرے پاس آکر کھڑی ہو گئی۔ میں فوراً بیدار ہوگیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا۔ آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیں میں لے آتی ہوں۔ میں نے اسکا شکریہ ادا کیا اور بتایا میں پہلے ہی بہت آرام اور سکون میں ہوں۔ وہ چلی گئی اور میں پھر سو گیا۔ کچھ دیر بعد وہ پھر کمرے میں آئی اور اس بار اس نے بہت ہلکے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میں اسکی موجودگی کی وجہ سے پھر بیدار ہو گیا۔ اس نے مجھ سے کہا آپ کو یہاں سردی محسوس ہو رہی ہوگی اس لئے آپ میرے کمرے میں جا کر سو جائیں وہاں درجہ حرارت بہت بہتر ہے۔ میں نے کہا میں نےپہلے سےہی دو کمبل جوڑ لئے تھے جس کی وجہ سے سردی محسوس نہیں ہو رہی آپکا بہت شکریہ۔ آپ لوگوں نے پہلے ہی مجھ پر بہت مہربانی کی ہے۔ وہ چلی گئی۔ رات بہت اچھی نیند میں گزری۔ صبح موسم ٹھیک تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنے کام پر نکل گیا۔ آج پندرہ سال بعد میں چھت پر انٹینا ٹھیک کر رہا تھا تو مجھے اس بوڑھے کی بیٹی کے ارادوں کی سمجھ آئی۔ یہ خیال آتے ہی وجود میں جھر جھری محسوس ہوئی، میرا توازن خراب ہوا اور میں چھت سے نیچے آگرا، جس کی وجہ سے میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ حادثہ تو پندرہ برس پرانا ہے لیکن اس کی ضرب کا نتیجہ آج برامد ہوا ہے۔

اسی طرح کچھ حادثے، کچھ واقعات، کچھ دھوکے بہت پرانے ہوتے ہیں بعض اوقات پندرہ سال پرانے، بعض اوقات بیس سال پرانے لیکن ان کے درد، ان کی تکلیف پندرہ یا بیس سال بعد اس وقت محسوس ہوتی ہے جب وقت اور لوگ ہماری دسترس سے بہت دور جا چکے ہوتے ہیں۔ اتنے دور کہ وہ دور بین یا ہبل ٹیلی سکوپ سے بھی نظر نہیں آتے ہم انکی تلاش میں ساری عمر متلاشی بنے رہتے ہیں۔ اسی تلاش میں ہمارے چہرے تلاش بن کر رہ جاتے ہیں۔ اور کبھی کبھی کسی کو پندرہ سال پہلے دیا ہوا دھوکہ گھوم کر ہماری چوکھٹ پر دستک دیتا ہے۔

میری اس تحریر کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ کچھ تحریریں کسی مقصد، کسی ارادے کے بغیر بس یونہی لفظوں میں ڈھل کر ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ شائد میری یہ تحریر بھی ایک ایسی ہی تحریر ہے جس کا کوئی مقصد نہیں تھا، کوئی وجہ نہیں تھی۔ صرف دل کے غبار کو ہوا میں تحلیل کرنا تھا، دل کے بوجھ کو کاغذ پر منتقل کرنا تھااور کندھوں پرپڑی زندگی کی گٹھڑی کو بس کچھ دیر کے لئے زمین پر رکھ کر سستانا تھا۔