1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. سرشت کے اندھے کنویں

سرشت کے اندھے کنویں

مجھے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا مگر میری بد قسمتی اور میرے متوقع مریضوں کی خوش قسمتی کہ ڈاکٹر تو کجا میں حکیم بھی نہ بن سکا۔ میرے ڈاکٹر بننے کے شوق کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میں میڑک میں مسلسل دو سال تک بائیو کے مضمون میں باقائدگی کے ساتھ فیل ہوتا رہا۔ بالاخر میں نے اس بے وفا مضمون کو یہ کہ کر اپنی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکال دیا کہ:

تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

گر تو ہے ہر جائی تو اپنے بھی یہی طور سہی

لیکن اس کےباوجود میں اپنے اردگرد موجود لوگوں کو مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کی نفسیاتی اور معاشرتی بیماریوں سے چھٹکارے کے لئے نسخے تجویز کرتا رہتا ہوں۔ یہ نسخہ کیمیا تو نہیں ہوتے لیکن ان کی تاثیر نسخہ کیمیاسے زیادہ ہوتی ہے۔ میں نے جن لوگوں کو اپنے مرتب کردہ نسخے تجویز کئے ان میں سے کسی نے شکایت نہیں کی، اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مردہ لوگ شکایت نہیں کرتے بلکہ اس کی وجہ درحقیقت مجھے خود بھی معلوم نہیں۔ اگر میں اسکی وجہ کبھی جان سکا تو میں آپ لوگوں کو ضرور بتاوں گا۔ ابھی میں آپ لو گوں کے لئے ایک آزمودہ نسخہ لے کر آیا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی اس کو آزمانے کے بعد شکایت نہیں کریں گے۔

انسانی زندگی اچھائی اور برائی کے امتزاج کا نام ہے۔ ہمارے اندر بیک وقت اچھائی اور برائی کی جنگ چلتی رہتی ہے۔ ہرانسان میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی پنہاں ہوتی ہیں۔ آپ تھوری دیر کے لئے انکھیں بند کریں، بلکہ نہیں آنکھیں بند کریں گے تو میری تحریر نہیں پڑھ سکیں گے، اس لئے آنکھیں بند مت کریں صرف اپنےلاشعور کی آنکھ کو کھول کر تصور کریں کہ آپ ایسے جگہ کھڑے ہیں جہاں آپ کے دائیں طرف کچھ سیڑھیاں ہیں جو انسانیت کی بلندی کی طرف جاتی ہیں اور بائیں طرف کچھ اندھےکنویں ہیں جوحیوانیت کے پاتال کی طرف جاتے ہیں۔ سیڑھیاں ان اخلاقی اچھائیوں کی ہیں جن پر جانے کو جی تو بہت چاہتا ہے لیکن ہم ان پر جانے کی ہمت نہیں کرتے، لیکن ان سیڑھیوں کے اختتام پر بار حال انسانیت کا تقدس اور انسانیت کی معراج ہوتی ہے۔ بائیں طرف موجود اندھے کنویں اخلاقی برائیوں کے کنویں ہیں جو بہت چھوٹے ہوتے ہیں جن پرصرف ہماری ایک ٹانک جتنی جگہ موجود ہوتی ہے۔ اب تصور کریں کہ آپ اگر ان میں سے کسی کنویں میں گر جاتے ہیں تو اپکی صرف ایک ٹانگ کنویں کے اندر ہو گی اور باقی سارا وجود روشنی میں کنویں سے باہر ہوگا۔ آپ تھوری سی کوشش کر کے اس کنویں میں سے اپنے آپ کو باہر نکال لیں گے۔ مگر آپ کے گرنے کی وجہ سے کنویں کا سوراخ تھوڑا بڑا اور گہرا ہو جائے گا۔ آپ کےاس کنویں میں بار بار گرنے سے اس کے پھیلاو اور اس کی گہرائی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا اور بالاخر یہ اتنا گہرا اوروسیع ہوجائے گا کہ اس سے خود کو نکالنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ تما م چھوٹے کنویں ہماری سرشت اور ہماری جبلی خامیوں کے کنویں ہیں۔ ابھی آپ لوگوں نے لاشعو ر کی آنکھ بند کر کے تصور کی سکرین کو توڑنا نہیں ہے۔ تصور کریں بائیں طرف موجود بے شمار کنویں چھوٹے بڑے کنویں ہیں۔ جو کنویں چھوٹے ہیں وہ اس لئے چھوٹے ہیں کیونکہ آپ ان اخلاقی برائیوں سےبچے ہوئے ہیں اور بڑے کنویں اس لئے بڑے ہوئے ہیں کیونکہ آپ بار بار اس میں گرتےرہے ہیں۔ یہ حسد، چغلی، غیبت، جھوٹ، نفرت، فریب اور مزید کئی اخلاقی خامیوں اور برائیوں کے کنویں ہیں۔ جن کو جبلی خامیاں بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان کنووں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں گرے پڑے انسان کو کبھی بھی اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس غلاضت میں مکمل ڈوبا ہوا ہے۔ ان کنووں میں متعفن نعشیں بھی ہوتیں ہیں لیکن ہمیں ان کا تعفن محسوس نہیں ہوتا، ان کنووں میں جہالت کا اندھیرہ بھی ہوتا ہے لیکن ہمیں اپنا آپ نور سے مزین نظر آتا ہے ۔ ان کنووں میں گرنے سے بظاہر کوئی چوٹ یا زخم نہیں آتا لیکن روح بری طرح گھائل ہو جاتی ہے۔ بائیں طرف موجود ان کنووں کی سب سے بڑی خامی یہ ہوتی ہے کہ ان میں گرنے سے نقصان سراسر گرنے والے کا ہوتاہے وہ ان کنووں میں موجودجلتی اگ میں خود ہی جلتا رہتا ہے، چاہے وہ حسد کا کنواں ہو، غصہ کا کنواں ہو، نفرت کا کنواں یا غیبت کا، اس کی سزا اس میں گرنے والے کو ہی ملتی ہے۔ اسی طرح ہمارے دائیں طرف موجود سیڑھیاں محبت، سچ، ایمانداری، خلوص کی سیڑھیاں ہوتیں ہیں جن کی بلندی پر سکون، اطمینان جیسی نعمتیں ہماری منتظر ہوتی ہیں۔

باقی تمام خامیوں اور برائیوں کے کنووں کی طرح حسد کا کنواں بھی ہمیں انسانیت کے درجے سے بہت دور دھکیل دیتا ہے۔ یہ بھی ایسا کنواں ہے کہ جس میں گرا ہواحاسدحسد کی اگ میں جلتا رہتا ہے لیکن جس سے حسد کیا جا رہا ہوتا ہے اسکو اس بات کی خبر بھی نہیں ہوتی کہ کوئی اس سے حسد کر رہا ہے۔ قانون قدرت ہے کہ اونچائی کی طرف جانا پڑتا ہے جبکہ نیچے کی طرف آنے کے لئے ایک دھکا ہی کافی ہوتا ہے چاہے وہ ایک دھکا مایوسی کا ہو، چاہے وہ ایک دھکا کسی برے خیال کا ہو، چائے وہ ایک دھکا کسی بدبودار ہوا کے جھونکے کا ہی کیوں نہ ہو۔ حسد بھی ایسی خامی ہے، یہ ایسا کنواں ہے جس میں جانے کے لئے محض ایک خیال، ایک منظر یا ایک فقرہ ہی کافی ہوتاہے۔ آج کے دور کے انسان نے حسد کے تنگ کنویں کو وقت کے ساتھ ساتھ اتنا بڑا، وسیع اور گہرا کر لیا ہے کہ اس میں گر کر اس سے واپس نکلنا کبھی کبھی ممکن نہیں لگتا۔ حسد کا براہ راست تعلق موازنے سے ہے۔ یا ہم یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ ان دونوں کا آپس کا بہت گہرا تعلق ہے اور اکثر یہ دونوں عذاب ساتھ ساتھ ہی نازل ہوتے ہیں۔ موازنے کے بعد احساس کمتری حسد پیدا کرتی ہے۔ میں حسد کے بارے میں زیاد ہ تمہیداس لئے نہیں باندھوں گا، کیونکہ یہ ایسی بیماری ہے جس کا فوراً پتہ چل جاتا ہے اس بیماری کی علامات بہت واضح اور صاف دکھائی دیتی ہیں۔ اس لئے میں سیدھا اس کے علاج کے طرف آتاہوں۔ آپ جس کے بارے میں اپنے اندر حسدمحسوس کریں اس کے بارے میں اللہ سے دعا کرنا شروع کر دیں۔ اگر کسی کے پاس اچھی گاڑی دیکھ کر آپ کے اندر حسد کے سینسر ایکٹو ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالی سے فوراً دعا کریں کہ یا اللہ اس کو اس سے اچھی ایک اور گاڑی عطا کر۔ اگر کسی کا اچھا گھر دیکھ کر حسد محسوس کرنے لگیں تو فوراً اللہ تعالی سے اس کے لئے مزید اچھے بنگلےیا کوٹھی کی دعا کریں۔ چونکہ شیطان ہندوستان اور امریکہ سے بھی بڑا ہمارا دشمن ہے اس لئے وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ایک مسلمان بھائی کسی دوسرے مسلمان بھائی کے لئے اچھے لفظو ں میں دعاکرے۔ آپ جیسے ہی کسی ایسے انسان کے بارےمیں دعا کریں گے جس کے بارے میں آپ حسد محسوس کرتے ہیں تو شیطان اس قسم کے خیالات اس قسم کے وسوسےآپ کے ذہن میں ہرگز نہیں ڈالے گا۔ برائی کو ختم کرنے کا بہترین حل اچھائی ہے۔ اپنے اندر، اپنے گھروں میں، اپنے معاشرے کی برائیوں کے برائی سے ختم کرنے کی بجائے اچھائی سے ختم کرنے کی کوشش کریں اس طرح آپ کو اللہ کی مدد اور اللہ کا ساتھ نصیب ہوگا اور جس کو اللہ کا ساتھ اور اللہ کی مدد نصیب ہو جائے وہ ہر میدان میں، ہر ارادے میں سرخرو ہوتاہے۔ آج سے چھوٹی سے کوشش شروع کریں کبھی کسی کا کسی سے موازنہ مت کریں تاکہ آپ کی وجہ سے کوئی کسی سے حسد نہ کرے اور اگر اپنے وجود میں حسد کی چنگاری اٹھنے لگے تو دعا سے اس کو ٹھنڈا کریں کیونکہ حسد نیکوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے لکڑی اگ کو کھا جاتی ہے۔