1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. امجد عباس/
  4. آلِ شریف کے بھولے بادشاہ

آلِ شریف کے بھولے بادشاہ

میاں محمد نواز شریف تین دفعہ اس مُلک کے وزیر اعظم بنے، اُن کی پارٹی کو اکثریت ملتی رہی۔ اُنھوں نے آئین میں ترامیم بھی کیں۔ قانون سازی میں بھی اُن کی جماعت پیش پیش رہی۔ اب جبکہ اُن کے خلاف پہلی بار عدالت عُظمیٰ کے پانچ رُکنی بینچ کا وہ فیصلہ آیا جس میں اُنھیں اپیل کا حق حاصل نھیں ہے تو وہ فیصلہ ماننے کے باوجود یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اِس مُلک میں کیسا قانون ہے؟ فیصلہ نظرثانی کے لیے بھی، فیصلہ سُنانے والے ججوں ہی کے پاس جائے گا؟

اِسے آلِ شریف الباکستانی کے بادشاہ کا بھولا پن ہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ تین بار وزیر اعظم رہنے کے باوجود، ملکی آئین اور بنیادی قوانین سے آگاہ نھیں ہیں۔ میاں صاحب کو نیب قوانین پر بھی اعتراض ہے۔ شاید اُنھیں یاد نھیں کہ احتساب کے نام پر سخت ترین قوانین اُنہی کی جماعت نے سابق سینیٹر سیف الرحمان کی نگرانی میں بنوائے تھے۔

میاں محمد نواز شریف کی لاعلمی سے پتہ چلتا ہے کہ اُنھیں تفتیش کے لیے محض ایک دن پنجاب پولیس کے حوالے کیا جائے تو وہ فرماتے نظر آئیں کہ یہ پولیس تفتیش میں مارتی کیوں ہے؟ یہ تھانوں میں رشوت کیوں لی جاتی ہے؟ محکمہ پولسی ایسا کیوں ہے؟

اُنھیں یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ میاں صاحب آپ دس سال ایک شہنشاہیت میں رہے ہیں، جہاں قیصر کی مرضی ہی قانون ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان آپ کی شہنشاہیت نہیں، یہ بظاہر ایک اسلامی اور جمہوری مُلک ہے۔ آپ تین بار حکومت میں وزیر اعظم رہے، پارٹی سربراہ بھی آپ تھے، جناب عالیٰ آئین میں مناسب ترامیم کر سکتے تھے، آپ نیب، پولیس اور دیگر اداروں کے مناسب قوانین بنوا سکتے تھے لیکن آپ نے عدلیہ، نیب اور پولیس کو اپنے سیاسی مخالفین کو رگڑنے کے لیے استعمال کیا۔ آپ نے جسٹس ر قیوم کو کہلوایا کہ زرداری کو اتنی سزا تو دیں ہی، گیلانی کی عدالتی پیشی پر آپ کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ جا پہنچے۔ اُسے علامتی سزا ملنے پر آپ نے سب سے پہلے کہا کہ وہ گھر جائیں۔ وزارت عظمیٰ کے اہل نھیں رہے۔ ذرا ماضی بعید میں جھانکیں تو جمہوری حکومت کو پامال کر کے آنے والے فوجی آمر کی کابینہ میں جناب شامل رہے۔ آپ وزیر اعلیٰ بھی بنے۔ آپ آمر کے مرنے کے بعد اُس کی سالانہ برسیوں پر اُس کے مشن (شاید جمہوری حکومت پر قبضہ کرنے) پر گامزن رہنے کے وعدے کرتے رہے۔ آپ نے آئی جے آئی کے نام پر تو کبھی دیگر بہانوں سے اسٹیبلشمنٹ سے مل کر پی پی پی کی حکومتوں کو اپنے آئیڈیل جرنیل کے طرح گروایا۔

سبھی مسائل کی جڑ کسی قدر آپ خود ہیں۔ ہمیں لگا کہ آپ تیسری بار سنبھل جائیں گے، آئین میں مناسب ترامیم کریں گے، قوانین کو بہتر بنانے اور اداروں کو مزید فعال بنائیں گے، شاید پولیس، صحت اور تعلیم جیسے محکموں کی فوری اصلاح کریں گے لیکن آپ حسبِ عادت ہی سبھی اختیارات اپنے پاس جمع کرنے لگے۔ آپ نے کئی وزارتوں کا قلم دان پاس رکھا۔ آپ کے پاس تو اپنی کابینہ کے وزراء سے ملنے کا وقت نہ تھا۔ آپ نے عوام سے جھوٹے وعدے کیے، آپ لوڈشیڈنگ چھ ماہ میں ختم کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ آپ نے چار سالوں میں محض میٹرو بس اور موٹر ویز کا کام کیا، ہاں سی پیک میں آپ نے ایک ٹھیکے دار کا سا رول ادا کیا۔ آج آپ سپریم کورٹ میں جعلی کاغذات جمع کروانے، پارلیمان اور عوام کے ساتھ جھوٹ بولنے اور اثاثے چُھپانے جیسے جرائم کی وجہ سے تاحیات نااہل ہو چکے ہیں۔ آپ ہمارے قومی وزیر اعظم سے قومی مُجرم بن چکے ہیں۔ میاں صاحب ہر بار عدالتوں میں جسٹس ر قیوم جیسے جج نھیں ملتے نہ ہی سیف الرحمان جیسا محتسب۔

اب بھی وقت ہے، آپ کی پارٹی حکومت میں ہے، گھر بیٹھ کے آئین اور قوانین کا مطالعہ کیجیے۔ آئین میں مناسب ترامیم کروائیے، قوانین کو بہتر بنوائیں۔ اپنا سارا وقت عوامی خدمت میں لگائیے، میاں صاحب!

ایدھی بنیے، بسم اللہ، ہم آپ کے ساتھ ہوں گے۔