1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. امجد عباس/
  4. پشتون، افغانی اور ہم

پشتون، افغانی اور ہم

پاکستان کے صوبوں میں مختلف اقوام، قبائل اور زبانیں بولنے والے شہری آباد ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خواہ اور صوبہ بلوچستان کے نام "پشتون" اور "بلوچ" قبائل کے نام پر ہیں جبکہ "پنجاب" اور "سندھ" کے نام قبائل کی بنیاد پر نہیں، اِن کی وجہ تسمیہ کچھ دیگر امور ہیں۔ "پنجاب" پانچ دریاؤں کی دھرتی کو کہا گیا، "پنجابی" کوئی ایک قبیلہ نہیں ہیں، یہ خطے کا نام ہے، جو بھی یہاں آباد ہوا، "پنجابی" کہلایا، یعنی پانچ دریاؤں کی دھرتی کا باسی۔ "سندھ" کا نام علاقے یا دریا سندھ کی مناسبت سے پڑا، اب جو بھی سندھ کا باسی ہوا "سندھی" قرار پایا۔ صوبہ بلوچستان کا نام اگرچہ "بلوچ" قبیلے کے نام پر رکھا گیا ہے لیکن اِس میں سبھی قبائل اور زبانوں کے لوگ آباد ہیں، یہی حال "خیبر پختون خواہ" کا ہے کہ اِس کا نام "پشتون" قبیلہ کی مناسبت سے رکھا گیا لیکن آباد دیگر قبائل اور زبانوں کے لوگ بھی ہیں۔
ایک بڑی قومیت کے لحاظ سے اِن سبھی صوبوں کے لوگ "پاکستانی" ہیں۔ تقسیمِ برصغیر نے ایک ہی ثقافت اور زبان کے بولنے والوں کو تقسیم کیا، آدھا پنجاب انڈیا کے پاس چلا گیا، آدھا پاکستان کے پاس۔ تقسیم میں "پشتون" قبیلہ بھی بٹ گیا، کچھ افغانستان میں تو کچھ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ جدید قومیت کے تصور کے لحاظ سے انڈین پنجابی، اپنے اطوار سے، زبان اور نسل سے، پاکستانی پنجابی کی طرح ہونے کے باوجود الگ قومیت کا حامل ہے۔ اِسی طرح ایک افغانی شہری، پشتون قبیلے کا فرد ہونے کے باوجود پاکستانی پشتون شہری سے الگ قومیت کا حامل ہے۔ افغانستان کے حالات خراب ہوئے، خانہ جنگی کی صورت میں پاکستان نے پڑوسی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے لاکھوں افغان مہاجروں کو پناہ دی، یہ "پشتون" قبیلے کے فرد ہونے کی حیثیت سے صوبہ خیبر پختون خواہ میں کثرت سے آباد ہوئے، لیکن تھے "غیر مُلکی"۔ پاکستان میں آج تک جاری دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ تر یہی لوگ ملوث تھے۔ اب جب اِن کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے تو دشمن ہمارے پختون برادران کو ابھارتا ہے کہ اِن لوگوں کی مدد کی جائے۔
یہ ایسے ہی ہے کہ انڈین پنجاب کا ایک شہری، یہاں دہشت گردی میں پکڑا جائے تو پاکستانی پنجابی شہری اُس کی حمایت کریں۔ یہ رویہ درست نہ ہوگا۔ حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ افغان مہاجروں کو محدود علاقوں میں ہی محدود رکھا جائے اور جلد از جلد اِنھیں افغانستان بھیج دیا جائے۔ وطن عزیز میں خودکُش دھماکوں میں ہمیشہ افغان شہریوں کا نام ہی سامنے آیا یا افغانستان سے ملحق قبائلی پٹی کے پشتون قبائل ملوث پائے گئے۔ آج جو پشتون احباب، محض پشتون ہونے کی وجہ سے افغان مہاجروں کا ساتھ دے رہے ہیں، اِنھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ کل کوئی افغان شہری یہاں تخریب کاری میں ملوث ہوا تو یہ تاثر تقویت پکڑے گا کہ اِسے پاکستانی پشتونوں کی حمایت حاصل ہے۔ یُوں نفرت کا رُخ، افغان شہری کی بجائے قبیلے کی طرف ہوجائے گا، جس کی ذمہ داری قبائلی عصبیت پھیلانے والے دوستوں پر ہوگی۔ جب سے افغان مہاجروں کو واپس افغانستان بھیجنے کی بات چلی ہے تب سے مخصوص عباصر تعصب اور نفرت پروان چڑھا رہے ہیں۔ امن و امان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر، ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے والے افراد کی تلاشی اور کوائف دیکھنے چاہیں، میں اگر اسلام آباد سے کراچی، کوئٹہ، پشاور یا کسی اور جگہ جاتا ہوں تو مکمل کاغذات دیکھے جانے چاہیں۔
اسی طرح بین الصوبائی، بین العلاقائی نقل و حمل میں بھی چھان پھٹک ہونی چاہیے۔ مُلک میں دہشت گردی کی لہر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، اِس میں زیادہ تر ملوث بھی غیر مُلکی (افغان) باشندے ہوتے ہیں، ایسے میں جلد از جلد غیر مُلکی افراد کی نقل و حرکت محدود کی جائے یا اِنھیں پاکستان سے باعزت اپنے وطن پہنچایا جائے۔ اِس سے ملکی حالات بہتر ہوں گے، دہشت گردی میں کمی ہوگی۔