1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. انصار عباسی/
  4. اجلاس میں عمران خان کے آس پاس کون بیٹھا؟

اجلاس میں عمران خان کے آس پاس کون بیٹھا؟

گزشتہ ہفتے کابینہ میں اہم تبدیلیوں کے اعلان سے قبل وزیراعظم عمران خان پاور سیکٹر سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک افسر کمیٹی روم میں داخل ہوا اور آکر اسٹاف کے ایک اعلیٰ افسر کے کان میں کچھ کھسر پھسر کی۔ اعلیٰ افسر اپنی نشست سے اُٹھے اور آکر وزیر اعظم عمران خان کے کان میں کوئی بات کی۔ جس پر وزیراعظم نے سرگوشی کے انداز میں انہیں جواب دیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد وزیراعظم جہاں بیٹھے تھے، اس کے دونوں اطراف میں ایک ایک کرسی لگا دی گئی۔ پھر دو اہم افراد کمیٹی روم میں داخل ہوئے اور وزیراعظم کے دونوں اطراف لگائی گئی کرسیوں پر براجمان ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق نئے آنے والوں نے اجلاس کی کارروائی میں شرکت کرتے ہوئے حکومت کی کارکردگی سے متعلق کچھ ایسی سخت باتیں کیں کہ اجلاس میں شامل سرکاری افسران ہکا بکا رہ گئے۔ شرکت والے والی شخصیات کون تھیں، اس پر بات نہیں کرتے لیکن یہ بھی اطلاعات ہیں کابینہ میں کی گئی تبدیلیوں میں چند قومی اداروں کا بھی اہم کردار شامل ہے، جنہوں نے وزیراعظم کو چند ایک وزراء کے متعلق ڈوزئیرز بھی دیئے۔ ان ڈوزئیرز میں کچھ کرپشن کی بھی کہانیاں درج تھیں۔ میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز میں یہ سوال بہت اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا یہ تبدیلیاں وزیراعظم عمران خان کی اپنی ذاتی خواہش پر ہوئیں یا کسی اور کے کہنے پر۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے ممتاز صحافی کامران خان صاحب نے اپنے ایک ٹویٹ میں نئے مشیرِ خزانہ کی تعیناتی سے قبل ہی یہ لکھ دیا تھا "وزارتِ خزانہ کس کو ملے، قرعہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے نام کھل رہا ہے، بتایا گیا ہے کہ ریس کے خاتمے کا فیصلہ اب سے تھوڑی دیر قبل آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات میں کیا گیا"۔ جیسا کہ کامران خان نے لکھا، بالکل ویسے کچھ دیر بعد، حکومت کی طرف سے اسد عمر کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مشیرِ خزانہ بنانے کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ دوسرے روز شام کو بیرونِ ملک مقیم ڈاکٹر حفیظ شیخ پاکستان تشریف لائے اور اگلے دن وزیر اعظم عمران خان سے اپنی پہلی ملاقات کی اور وزارتِ خزانہ کے سربراہ کی حیثیت سے کام بھی شروع کر دیا۔ حفیظ شیخ کے آنے پر پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے پہلے دن مثبت ردعمل دیا۔ دیکھنا ہے اب آگے کیا ہوتا ہے اور پاکستان کی معیشت اور کاروباری حالات بہتری کی طرف گامزن ہوتے ہیں یا مشکلات میں ہی گھرے رہتے ہیں۔

اطلاعات یہ بھی مل رہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ندیم بابر کو اپنا معاونِ خصوصی برائے پیٹرولیم بنائے جانے پر سب خوش نہیں اور ممکنہ طور پر یہ تعیناتی واپس بھی لی جا سکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیرِ پانی و بجلی عمر ایوب کو وزارتِ پیٹرولیم کا اضافی چارج دیئے جانے کا مقصد ندیم بابر کو فارغ کرنا ہو سکتا ہے۔ ندیم بابر کے متعلق میڈیا میں کہا اور لکھا جا رہا ہے کہ اُن کی تقرری مفادات کے ٹکرائو کے ضمن میں آتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ مبینہ طور پر ڈیفالٹر ہیں بلکہ اورینٹ پاور کمپنی کے شیئر ہولڈر بھی ہیں اور یہ اعتراض ایک اہم حکومتی ایجنسی کی طرف سے بھی اُٹھایا گیا ہے۔ البتہ ندیم بابر کا کہنا ہے کہ مقامی عدالت کے فیصلہ دینے سے قبل اُن کی کمپنی کو ڈیفالٹر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خبروں کے مطابق اورینٹ پاور سوئی ناردرن کی سب سے بڑی ڈیفالٹر کمپنی ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم نے اپنی ٹیم میں جو تبدیلیاں کیں، اُس کے بعد بھی اگر حکومت کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی اور خصوصی طور پر معیشت اور کاروبار کے حالات بہتر نہ ہوئے تو عمران خان کے اپنے لیے مشکلات بہت بڑھ سکتی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ابتدائی طور پر اسد عمر کو بجٹ کے بعد وزارتِ خزانہ سے فارغ کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن جلدی کرنا پڑی۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے میں بھی اہم لوگوں کو سخت شکایات ہیں اور فیصلہ کے مطابق صوبہ پنجاب کے بجٹ کے پاس ہونے کے بعد عثمان بزدار جو عمران خان کے وسیم اکرم پلس ہیں، کو بھی اس عہدہ سے فارغ کر دیا جائے گا۔ بہت سوں کے مطابق فواد چوہدری تو تحریک انصاف کا بہت اچھا دفاع کر رہے تھے تو اُنہیں وزارتِ اطلاعات سے نکالے جانے کی کیا وجہ تھی؟ اطلاعات کے مطابق اگرچہ فواد چوہدری صاحب کا اپوزیشن کے متعلق وہی لہجہ تھا جو وزیراعظم عمران خان کا ہے لیکن اس رویے سے سب خوش نہیں کیونکہ دن رات کی حکومت اپوزیشن کی لڑائی سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے جس کا کاروبار اور معیشت پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔ نئی مشیرِ اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے تو اپنے پہلے ہی اخباری بیان میں مصالحت کی پالیسی کی بات کی اور کہا کہ اپوزیشن کے بغیر پارلیمنٹ اور جمہوریت نہیں چل سکتی۔ اب وقت بتائے گا کہ کابینہ میں ان تبدیلیوں کے بعد عمران خان اور اُن کی حکومت کے رویہ میں بھی کوئی تبدیلی نظر آتی ہے کہ جس سے سیاسی استحکام اور معیشت کی ترقی کے لیے بہتر ماحول پیدا ہو، تاہم اگر ایسا نہ ہوا تو پھر گڑبڑ ہی ہوگی۔