1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. انصار عباسی/
  4. معاشرتی گراوٹ کا شکار پاکستان اور ہماری بے حسی

معاشرتی گراوٹ کا شکار پاکستان اور ہماری بے حسی

لاہور میں واقع پاکستان کے ایک اہم تعلیمی ادارے میں حال ہی میں رونما ہونے والے ایک واقعہ نے ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرتی بگاڑ کے حوالے سے کئی سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چند ہفتے قبل ایک معروف تعلیمی ادارے کی طالبات نے بڑی تعدار میں یونیورسٹی کیمپس میں ایک احتجاج کیا۔ یہ احتجاج اسی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تقریباً چھ سو طلباء کے خلاف تھا، جنہوں نے سوشل میڈیا (فیس بک) پر ایک ایسا گروپ بنا رکھا تھا جس میں یونیورسٹی کی طالبات سے متعلق انتہائی قابلِ اعتراض جنسی مواد شیئر کیا جاتا تھا۔ میڈیا خبروں کے مطابق احتجاج کرنے والی طالبات کا کہنا تھا کہ اس فیس بک گروپ میں اُن کی تصاویر پر جنسی تبصرے کیے گئے جس سے اُن کی ساکھ متاثر ہوئی۔ احتجاج کرنے والی طالبات نے یونیورسٹی انتظامیہ سے یہ مطالبہ کیا کہ اس فیس گروپ میں شامل طلباء کے خلاف کارروائی کر کے اُنہیں تعلیمی ادارے سے نکال باہر کیا جائے۔ مذکورہ تعلیمی ادارے کا شمار پاکستان کے اُن چند تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے جس میں داخلہ لینا اکثر طلباء و طالبات کے لیے ایک خواب ہوتا ہے۔ عمومی طور پر جن اسٹوڈنٹس کا اس ادارے میں داخلہ ہوتا ہے وہ قابل اور لائق تصور کیے جاتے ہیں اور اکثریت اُن اسکولوں سے پڑھ کر اس ادارہ میں آتی ہے جنہیں ہم اچھے انگلش میڈیم اسکول سمجھتے ہیں۔ گویا ایک ایسی یونیورسٹی میں جس کا شمار پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہو، جس میں ملک بھر سے بہترین طلباء و طالبات پڑھنے کے لیے آتے ہوں، اگر وہاں اخلاقی گراوٹ کا اتنا بڑا واقعہ رونما ہوا ہے تو پھر یہ محض اس ادارے کے لیے نہیں بلکہ ریاست اور معاشرے، دونوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر دو چار طلباء کی بات ہوتی تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا لیکن میڈیا اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی کے چھ سو طلباء اس فیس بک گروپ سے منسلک تھے، جو اسی ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کے متعلق نازیبا مواد شیئر کرتے رہے۔ اگرچہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس معاملے پہ ایکشن لینے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن یہ مسئلہ دراصل بہت بڑا ہے اور اس کا تعلق ہمارے تعلیمی نظام کے اُس بنیادی نَقص سے ہے جس کی طرف ہماری ریاست، معاشرہ اور اکثر تعلیمی اداروں کی کوئی توجہ نہیں اور جس کے نتیجے میں ہم ایک ایسا معاشرہ پیدا کر رہے ہیں جو اخلاقی لحاظ سے شدید تنزلی کا شکار ہے، جس کا مظاہرہ ہم آئے دن اپنے اردگرد دیکھتے رہتے ہیں۔

عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم کسی بھی فرد کو بہتر انسان بناتی ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ (جس میں پڑھے لکھے اور اَن پڑھ دونوں شامل ہیں) اخلاقی پستی کا شکار ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں معاشرے اور افراد کی تربیت کا کوئی باضابطہ انتظام نہیں۔ ماضی میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی بہت زور دیا جاتا تھا لیکن اب ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن تربیت اور کردار سازی کا کوئی اہتمام نہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی اکثریت دینی و معاشرتی اقدار کو پڑھانے اور سکھانے کے بجائے مغربی کلچر کو اپنا کر اپنے آپ کو ماڈرن ظاہر کرنے میں مشغول ہے۔ سارا زور انگریزی بولنے اور مغربی کلچر کی نقالی میں لگایا جا رہا ہے جبکہ طلباء و طالبات کی کردار سازی، اُن کی اخلاقی تربیت، دینی شعور اور مقصدِ حیات کے لیے کوئی کام نہیں ہو رہا۔ والدین کا بھی فوکس یہی ہے کہ اُن کے بچے کو اچھی ڈگری مل جائے، وہ اچھی انگریزی بولتا ہو تاکہ لاکھوں کی نوکری کے قابل ہو جائے۔ حکومت و ریاست بھی معاشرے کی کردار سازی سے متعلق اپنی ذمہ داری سے غافل ہے اور یوں ہم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں جہاں آئے روز ایسی ایسی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ انسانیت شرما جاتی ہے۔ ہر طرف جھوٹ، فراڈ اور دھوکہ دہی کا راج ہے، معاشرتی خرابیوں اور اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ کوئی دن نہیں گزرتا کہ کسی بچے کو زیادتی کا شکار بنانے کے بعد قتل کرنے کی خبر نہ آتی ہو۔ کراچی کے ایک اسپتال میں ایک چھبیس سالہ نوجوان لڑکی اپنے علاج کے لیے گئی لیکن مبینہ طور پر اُس کو وہاں زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد انجکشن لگا کر قتل کر دیا گیا اور اس جرم میں دوسرے افراد کے علاوہ ڈاکٹر کے ملوث ہونے کی بھی شکایات ہیں۔ حکومت، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور ریاستی اداروں کو دوسرے مسائل سے متعلق تو فکر ہے لیکن سوسائٹی کی تربیت کے اس اہم معاملہ پر کسی کی توجہ نہیں جس کی وجہ سے ہم ایک ایسا معاشرہ بنتے جا رہے ہیں جس کی کوئی اخلاقیات نہیں، جہاں ہر بُرائی جڑ پکڑتی جا رہی ہے اور جو ایک ایسی تباہی کے رستے پر گامزن ہے جسے کوئی روکنے والا نہیں۔