1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. انصار عباسی/
  4. پی ٹی آئی حکومت سے متعلق افواہیں!

پی ٹی آئی حکومت سے متعلق افواہیں!

وفاقی کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں کے حوالے سے ہر قسم کی افواہیں گردش کر رہی ہیں اور سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا یہ تبدیلیاں وزیراعظم عمران خان کی خواہش پر ہوئیں یا کسی اور کے دبائو کا نتیجہ تھیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس حکومت کو لانے والے، سپورٹ کرنے والے اور خان صاحب سے بڑی بڑی امیدیں باندھنے والے مایوس ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ اگر اب بھی عمران خان حکومت نے پرفامنس نہ دکھائی تو پھر کابینہ میں تبدیلی نہیں بلکہ حکومت کی چھٹی کا آپشن ہی باقی رہ جائے گا۔ یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ پی ٹی آئی پروجیکٹ فیل ہوتا نظر آ رہا ہے، اس لیے اب کسی دوسرے پروجیکٹ پر کام کرنا پڑے گا۔ افواہیں، افواہیں ہوتی ہے لیکن پاکستان کی تاریخ کو دیکھتے ہوے ڈر ہی لگا رہتا ہے کہ کہیں واقعی یہ باتیں سچ ثابت نہ ہوں۔ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن ہم اب بھی یہ باتیں کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی پروجیکٹ یا عمران خان پروجیکٹ فیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ہمارا ماضی حکومتوں کو گرانے، من پسند حکمرانوں کو لانے، سیاسی پارٹیوں کو توڑنے اور کنگز پارٹیوں کو بنانے کے پروجیکٹس سے بھرا پڑا ہے لیکن اس سب کا حاصل کیا ہوا؟ نہ ہماری معیشت نے ترقی کی، نہ عوام کو خوشحالی ملی، اداروں کو بنانے کاخواب شرمندۂ تعبیر ہوا اور نہ ہی یہاں آئین و قانون کی عملداری کا خواب پورا ہوا۔ حالات بد سے بدتر ہی ہوئے کیونکہ سسٹم کو چلنے نہیں دیا گیا، سارا زور پروجیکٹس پر ہی رہا۔ پروجیکٹس کا ظاہری نشانہ سیاستدان رہے، ہر غلطی اور ہر ناکامی کا ذمہ دار بھی سیاستدانوں کو ہی ٹھہرایا گیا لیکن دراصل ان تمام پروجیکٹس سے نقصان پاکستان اور پاکستان کے عوام کا ہوا۔ نتیجتاً ہم آج بھی کنفیوژن کا شکار ہیں کہ کیا ہمیں 1973ء کے آئین کے مطابق پارلیمانی نظام ہی چلنے دینا چاہیے یا یہاں صدارتی نظام رائج کیا جانا چاہئے۔ پارلیمانی نظام کو یہاں چلنے نہیں دیا گیا، آئینِ پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں رہی اور پھر ہم کہتے ہیں کہ نظام کو بدلو، آئین کو بدلو۔ اگر حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کو جوڑنے توڑنے کے پروجیکٹس جاری رہے تو یاد رکھیں آنے والے سو سال میں بھی نہ ہم کسی نظام سے مطمئن ہوں گے اور نہ ہی کوئی پروجیکٹ کامیاب ہوگا۔ نظام تو وہ کامیاب ہوتا ہے جسے طے شدہ ضابطوں کے مطابق چلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہم نے تو بار بار دیکھا کہ جمہوری پروجیکٹ بنائے جاتے ہیں، پھر اُنہیں فیل کر دیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ نظام میں خرابی ہے، آئین ٹھیک نہیں۔

عمران خان کس طرح حکومت میں آئے اس بارے میں عمومی طور پر جو کہا جاتا ہے وہ اگر سچ بھی ہے تو میں نہ پی ٹی آئی کی حکومت اور نہ ہی عمران خان کے ایک پروجیکٹ ہونے کے ناتے فیل ہونے پر خوشی کا اظہار کروں گا۔ الیکشن جیسے بھی ہوئے، جب تک کوئی عدالتی فیصلہ انتخابات کے خلاف نہیں آ جاتا، عمران خان اس ملک کے وزیراعظم ہیں اور پارلیمنٹ عوام کا نمائندہ ادارہ، جنہیں بغیر کسی تیسرے فریق کے دبائو کے آئین و قانون کے مطابق چلنے دینا چاہئے۔ اگرچہ بہت سوں کے نزدیک عمران خان اپنی حکومت کے سب سے بڑے دشمن خود ہیں لیکن یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے کسی پروجیکٹ کا بالواسطہ یا بلاوسطہ حصہ نہ بنے۔ اگر کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ماضی میں کسی پروجیکٹ کی بنیاد پر زیادتی ہوئی یا اُس کی حکومت کو ختم کیا گیا اور اُس میں اُس کے مخالفین کو استعمال کیا گیا تو اس بنا پر اب وہ عمران خان اور پی ٹی آئی سے بدلہ لے گی یا اس پروجیکٹ کو خوشی سے فیل ہوتا دیکھے گی تو پھر سمجھ لیں کہ دراصل یہ کامیابی اُس کی نہیں بلکہ اِس سے پروجیکٹس کے کھیل کو مضبوط کیا جائے گا اور نظام کمزور ہی رہے گا۔

جہاں تک عمران خان کی حکومت اور طرزِ حکمرانی کا تعلق ہے، محسوس ایسا ہوتا ہے کہ عمران خان تحریک انصاف میں بھی کسی کی نہیں سنتے اور اپنے سیاسی مخالفین کے متعلق اُنہوں نے اپنے دل و دماغ میں ایسی نفرت پال رکھی ہے جس کے ہوتے ہوئے نہ ملک میں سیاسی استحکام آ سکتا ہے اور نہ ہی معیشت ترقی کر سکتی ہے۔ خان صاحب احتساب کے لیے نظام کو بہتر بناکر سبھی چوروں، ڈاکوئوں کو ضرورق پکڑیں لیکن اُن کا جو گزشتہ آٹھ ماہ کا طرزِ عمل ہے، وہ اپنے ساتھ دشمنی سے کم نہیں۔