1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. انصار عباسی/
  4. لیکن عمران خان کو کون سمجھائے؟

لیکن عمران خان کو کون سمجھائے؟

وزیراعظم عمران خان کو کون سمجھائے کہ وہ اب حکومت میں ہیں، اپوزیشن میں نہیں۔ خان صاحب کو کون سمجھائے کہ حکومت کو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے کپتان کو کون سمجھائے کہ اُن کو اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق انقلابی اور اصلاحاتی ایجنڈے کے نفاذ کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ آئین میں بھی ترامیم کی ضرورت پڑے گی۔ عمران خان کو کون سمجھائے کہ اُنہیں ہر حال میں موجودہ پارلیمنٹ سے ہی قوانین پاس کروانا ہوں گے اور اس کا متبادل آرڈیننس کا نفاذ نہیں ہو سکتا۔ خان صاحب کو کون سمجھائے کہ قانون سازی اور آئین میں ترامیم کے لیے اگر حکومت اپوزیشن کو اپنے ساتھ نہیں ملائے گی تو نہ کوئی قانون بن سکتا ہے اورنہ ہی آئین میں ترمیم ممکن ہو گی۔ لیکن جب کوئی یہ کہہ دے کہ حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ مل کر قومی مفاد میں قانون سازی اور اصلاحات کے ایجنڈے کا نفاذ کرنا چاہئے تو خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کو کسی قسم کا این آر او نہیں دیں گے۔ اپوزیشن پوچھتی ہے کہ این آر او کس نے مانگا؟ تو اس پر نہ خان صاحب اور نہ ہی اُن کے وزراء کے پاس کوئی جواب ہوتا ہے۔ نجانے کیوں خان صاحب سکون سے حکومت نہیں چلانا چاہتے۔ جب سے خان صاحب نے حکومت سنبھالی، اپوزیشن کے برعکس اُن کی اور اُن کے کچھ وزراء کی مخالفین کے ساتھ لڑائی میں دلچسپی زیادہ نظر آتی ہے۔ حکومتی پارٹی کے عمل سے ابھی تک محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ وہ حکومت میں ہے۔ الزامات، "چور، ڈاکو، اور" کھا گئے، کھا گئے، کے نعرے ویسے ہی لگائے جا رہے ہیں جیسے تحریک انصاف اپوزیشن کے دور میں لگایا کرتی تھی۔ بھئی! اب آپ حکومت میں ہیں، جو چور ہے، جس نے ڈاکا ڈالا، جس نے عوام کا مال کھایا اُسے پکڑیں۔ اب نعروں کا نہیں عمل کا وقت ہے۔ یہ وقت ہے نواز شریف کی تین سو ارب روپے کی کرپشن کو سامنے لانے کا جس کے بارے میں خان صاحب اور اُن کی پارٹی کے لوگ ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔ یہ وقت ہے عدالتوں کے اُن فیصلوں کو غلط ثابت کرنے کا جن کے مطابق نواز شریف کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ وقت ہے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خلاف کرپشن کے ثبوت نیب اور عدالتوں کو فراہم کرنے کا کیونکہ ابھی تک تو نیب کے مطابق اس کے پاس شہباز شریف کے خلاف پیسوں کی کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں۔ پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کو طعنہ دینے کے بجائے جعلی اکائونٹس کیس میں تحقیقات کو جلد از جلد مکمل کیا جائے اور جو اس مبینہ کرپشن میں شامل ہے، اُس کے خلاف کیس بنا کر عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب سے اس بات کی بھی توقع ہے کہ وہ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں میں شامل مبینہ کرپٹ افراد کے خلاف بھی اُسی جوش و خروش کے ساتھ کارروائی کریں گے جس انداز میں حکومت کے مخالفین کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ اگر شہباز شریف کو بغیر ثبوت کے نیب پکڑ رہی ہے، جس پر خان صاحب نیب کو شاباشی بھی دیتے ہیں، تو اُسی نیب کو اس قابل بھی بنائیں کہ وہ اسی اصول کے مطابق حکومت میں شامل اُن افراد کو بھی پکڑے جن کو کافی سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ کوئی خان صاحب کو اس سے نہیں روکتا کہ کرپٹ عناصر کے خلاف ایکشن نہ لیں یا اُنہیں نہ پکڑیں۔ بس التجا یہ ہے کہ بلاوجہ سیاسی ماحول کو گرم مت رکھیں، سیاسی استحکام آنے دیں، وسط مدتی انتخابات کی بات مت کریں اس سے ملک کے حالات خراب اور لوگوں کے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی شہر کے، کسی بھی کاروباری طبقے سے پوچھیں، لوگ یہی کہیں گہ کاروبار بہت خراب ہیں، بزنس چل نہیں رہا۔ میری رائے میں تو معیشت، گورننس، ادارہ سازی اور احتساب جیسے اہم ترین معاملات میں حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ ملا کر پارلیمنٹ کے ذریعے ایک ایسے اتفاقِ رائے پر پہنچنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ کم از کم ان چار معاملات پر کوئی سیاست نہ ہو۔ اسی صورت میں حکومت بھی اپنے منشور پر پورے فوکس کے ساتھ عمل درآمد کرنے کے قابل ہو گی۔ لیکن عمران خان کو کون سمجھائے؟