1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. انصار عباسی/
  4. نیب کی تعریف تو بنتی ہے!

نیب کی تعریف تو بنتی ہے!

نیب کے خلاف منفی پروپیگنڈہ پر چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کافی پریشان ہیں۔ کہتے ہیں کہ ادارے کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جسٹس صاحب ٹھیک ہی کہتے ہوں۔ نیب کی پرفارمنس دیکھنا ہو تو پہلے اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ اس پرفارمنس کو کس کی نظر سے دیکھنا ہے۔ اگر نیب کو جنرل مشرف اور دوسرے طاقتور حلقوں کی نظر سے دیکھنا ہے تو پھر تو نیب اور اس کے چیئرمینوں کی نہ صرف تعریف بنتی ہے بلکہ اُنہیں انعام و اکرام بھی دیا جانا چاہئے۔ جس طرح بار بار نیب نے کرپشن کے کیسوں کو حکومتوں کو بنانے، گرانے اور سیاسی پارٹیوں کو توڑ کر کنگز پارٹیاں بنانے میں کردار ادا کیا، اس پر واقعی نیب کی تعریف تو بنتی ہے۔ کس طرح چوہدری شجاعت، چوہدری پرویزالٰہی اور دیگر کئی سیاستدانوں کے خلاف کیسز بنائے گئے، اُن کو کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جب ان سیاستدانوں نے مشرف کی ق لیگ کو بنانے اور اس میں شامل ہونے کی ہامی بھر لی تو نیب نے ایسے تمام سیاستدانوں کی فائلوں کو داخلِ دفتر کر دیا۔ اتنی بڑی خدمت پر نیب کی تعریف تو بنتی ہے۔ جب مشرف سب کچھ کرکے بھی اس قابل نہ ہو سکے کہ اُن کی کنگز پارٹی حکومت بنا پائے تو پھر نیب ہی کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے والے ایک درجن کے قریب اراکین پر دبائو ڈال کر پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی اور اُسے کنگز پارٹی کے ساتھ ملا کر مشرف کی مرضی کی حکومت بنوائی گئی۔ اس کھیل کے پیچھے بھی نیب کا کلیدی کردار تھا، اس پر کیسے کوئی اس ادارے کی خدمات سے انکار کر سکتا ہے؟ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے کرپشن کیسز بنائے گئے، جن میں جھوٹے کیس بھی شامل تھے اور بدعنوانی کے مضبوط مقدمات بھی، لیکن جب مشرف کو اپنا سیاسی مستقبل بچانے کے لیے پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملانا پڑا تو ایک بار پھر اس مقصد کے لیے نیب ہی کے مقدمات کو استعمال کرنا پڑا۔ مشرف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر این آر او سائن کیا اور نیب کے تمام بڑے مقدمات کو ختم کر دیا۔ این آر او کو عدلیہ نے ردّ کر دیا تو یہ تمام کیس ایک بار پھر کھل گئے۔ اب مشرف مستعفی ہوئے اور زرداری صاحب نے حکمرانی سنبھال لی۔ این آر او کے تحت مقدمات کو سپریم کورٹ کے حکم پر نیب نے دوبارہ کھول تو دیا لیکن ایک ایک کرکے ان مقدمات کو اس کمال مہارت کے ساتھ کمزور اور احتساب عدالت میں ہارنا شروع کیا کہ اب شاید ہی زرداری صاحب کے خلاف کوئی مقدمہ احتساب عدالت میں باقی بچا ہو۔ بہت بڑے بڑے نام جن کو نیب کرپٹ کہہ کہہ کر نہیں تھکتا تھا، سب کو ایک ایک کرکے مقدمات سے بری کروا دیا گیا۔ ملزمان کے حق میں نیب نے دوستانہ استغاثہ کی ایسی مثالیں قائم کی کہ تاریخ میں ایسی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ ایک مقدمہ میں بااثر ملزم کو فائدہ دینے کے لیے نیب نے ایک ایسا گواہ پیش کیا جو نیب کے ایک دوسرے مقدمہ میں مفرور ملزم تھا۔ اس دیدہ دلیری پر نیب کی تعریف تو بنتی ہے۔ کم از کم نیب کے تین اہم ترین این آر او مقدمات میں دو مختلف احتساب عدالتوں نے جو تین فیصلے دئیے، وہ حیران کن انداز میں ایک ہی جیسے تھے۔ ان فیصلوں میں بھی نیب کی ملی بھگت صاف ظاہر ہوتی تھی۔ جب "دی نیوز" نے اس اسکینڈل کے بارے میں لکھا تو متعلقہ ہائیکورٹ نے انکوائری کا حکم دیدیا اور متعلقہ ججوں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی شروع کر دی جو بدقسمتی سے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے ختم ہو گئی۔ نیب نے اس معاملہ پر نہ تو اُن متنازع فیصلوں کے خلاف اپیل کی، نہ سپریم کورٹ کو باقاعدہ اس اسکینڈل کے بارے میں آگاہ کیا اور نہ ہی اپنے کسی افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کی۔ اس پر کون نیب کی تعریف کرنے سے اپنے آپ کو روک سکتا ہے؟ سابق چیئرمین نیب جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے کہ نیب کو کس طرح بار بار استعمال کیا گیا اور کیسے بڑے بڑے مافیاز کے خلاف نیب کو اقدمات کرنے سے روکا گیا۔ اس سعادت مندی پر بھی نیب کی تعریف تو بنتی ہے۔ ویسے جاوید اقبال صاحب جس "انصاف" کے ساتھ کسی کو انکوائری اور انویسٹی گیشن کے مرحلہ میں پکڑ کر اندر کر دیتے اور کسی کو ریفرنس فائل ہونے پر بھی نہیں پکڑتے، اس پر بھی اُن کی اور ان کے ادارے کی تعریف تو بنتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جن کو پکڑا جا رہا ہے اُن کا تعلق اپوزیشن سے ہے اور جنہیں رعایت دی جا رہی ہے اُن کا تعلق حکومت سے ہے۔ اس "انصاف" پر بھی نیب کی تعریف تو بنتی ہے۔ چلیں! سیاستدان چاہے کسی ایک پارٹی سے ہوں یا دوسری جماعت سے، نیب اُن کو پکڑتا ضرور ہے لیکن کس کی باری کب آتی ہے، اُس پر نیب ضرورت اور حکم کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ہاں! نیب اُن ریٹائرڈ جنرلز (جو اسے مختلف کرپشن کے مقدمات میں مطلوب ہیں) کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کرتا، نہ اُنہیں سیاستدانوں کی طرح ہتھکڑیاں لگا کر جیلوں میں ڈالتا ہے۔ یہ نیب کا کوئی امتیازی سلوک نہیں بلکہ نیب ایسا وسیع تر قومی مفاد میں کرتا ہے، جس پر نیب کی تعریف تو بنتی ہے!