1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اشفاق عباسی/
  4. درندے سے کارندے تک

درندے سے کارندے تک

4 جنوری 2018ء کو اغوا ہونے والی بچی زینب چار دن بعد مردہ حالت میں ایک کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پائی گئی اس بچی کی ہلاکت کو بھی ہمارے سسٹم میں موجود ''بگ Bug" شایداسی طرح ہی مٹی ڈال دیتے جس طرح زینب سے قبل بچیوں کے ساتھ ہوا اور یہ خون کا کھیل گذشتہ چند برسوں سے نہ صرف تیزہوا بلکہ بے خوض اور بے حیائی کی تمام حدوں کو پار کیا گیا لیکن اس مرتبہ الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیانے اس قتل کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا اور تمام میڈیا ہاؤسز نے نہ صرف اس بچی کے قتل کا پیچھا کیا بلکہ اس سے پہلے قتل ہونے والی چھوٹی معصوم بچیوں اور بچوں کو بھی خبروں کی دنیامیں زندہ کردیا، کیونکہ ناحق خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا اور وہ بھی معصوم بچوں کا؟ نا ممکن دراصل قصور میں ''بچوں کے قتل کی وارداتیں" ایک انتہائی سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہر دفعہ عمل میں آتی رہی اور پولیس کی عدم دلچسپی اور ثبوتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہمیشہ اصل مجرم بچ جاتے رہے اور ان گھناؤنی وارداتوں کو بدستور جاری رکھا، یہ گھناؤنی وارداتیں ایک خاص مقصد کے لیے ہوتی رہیں جس کے تاندے باندھے یہاں کی اشرافیہ سے بلکہ باہر کی اس دنیا سے ملتے ہیں جو کہ ڈیپ ویب انٹرنیٹ کا اصل سمندر ہے، یہانپر میں اپنے قارعین کو انٹرنیٹ کی دنیا کی چند چیزیں گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں، ہم جو انٹرنیٹ (گوگل، وکی پیڈیا اور بِنگ) وغیرہ استعمال کرتے ہیں وہ صرف پانچ فی صد ہے اس کو سرفیس ویب کہتے ہیں، یہ ویب سائیٹ انڈیکس ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہر شخص اس فیس ویٹ تک رسائی حاصل کرسکتا ہے باقی 95% فیصد انٹرنیٹ ڈیپ ویب یا ڈارک ویب کے زمرے میں آتا ہے یعنی ہم لوگ جو نیٹ استعمال کرتے ہیں وہ سمندر میں موجود ٹپ آف آئس برگ ہے باقی 95% فیصد اس آئس برگ کا سمندر کے اندر ہوتا ہے یعنی ڈیپ ویب بھی اسی طرح ہے اور شاید کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس انٹرنیٹ دنیا کا حجم کتنا بڑا ہے اور اس کے بعد ڈارک ویب کی باری آتی ہے اس کو اس دنیا میں عریانہ ویب بھی کہتے ہیں، ڈیپ ویب وہ سائیٹ ہے جو انڈیکسڈ نہیں ہوتی یہ سائیٹ ہر دو نمبر کام کے لیے بنائی گئی جس میں نہ صرف اسلحہ(ہر قسم کام کی خرید و فروخت ہوتی ہے بلکہ منشیات، چوری، کرائے کے قاتل(قتل کی سپاری) کمپیوٹر ہیکرز، بینک ریکارڈز، میڈیکل ریکارڈز، حتیٰ کہ تیارہ شدہ ہوائی جہازوں کے بلیک باکس بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ ہر قسم کا سیکس، دنیا کے بدترین تشدد کے ساتھ دستیاب ہوتا ہے، شیطانیت کی اس دنیا میں کم سن بچوں پر لائیو تشدد ڈالرز کے عوض دکھایا جاتا ہے اس کے لیے انہوں نے "ریڈ رومز" بنائے ہوئے ہیں جہاں پر دنیا کا بد ترین تشدد دکھایا جاتا ہے جیسے زندہ انسان (بچے) کی کھال اتارنا، آنکھیں نکالنا، ناک کان کاٹنا شامل ہیں، اس کے بعد ان سب سائیٹس کا باپ"سریانہ ویب "ہے جسے نہ کوئی جان سکا ہے اور نہ اس تک پہنچنا آسان ہے کیونکہ وہاں دنیا کی چند بڑی طاقتوں کے قیمتی راز محفوظ ہیں اور یہاں تک رسائی کے لیے مخصوص براؤزر، یوزر آئی ڈی، اور پاس ورڈ کی ضرورت ہوتی ہے اس شیطانی دنیا کو یہیں چھوڑ کر ہم اپنے سرِدست موضوع کی طرف واپس آتے ہیں تو ڈیپ ویب پر جیسے میں نے غالباََ پہلے عرض کیا ہے کہ یہ ویب خفیہ ادارے، مافیا، بیٹ مین، سیکرٹ سا ئیٹز استعمال کرتی ہیں یہاں پر نہ صرف ڈرگز کا کاروبار ہوتا ہے بلکہ مہلک ہتھیاروں کا، کنٹریٹ کِلنگ کا اور چائلڈ پورنو گرافی کا، پرائیویٹ لائیو لڑائی کا، ملکوں کے راز چرانے اور بیچنے کا، انسانی اعضاء خریدنے اور فروخت کرنے کا، لوگوں کے بینک اکاؤنٹس ہیک کرنے کا اور ان کا کاروبار کرنے والوں کو بظاہر مشکل ہے اور اب آتے ہیں زینب کی طرف کہ اس بچی کے ساتھ چار دن تک مبینہ زیادتی کی جاتی رہی اور اس کی ویڈیوز بنائی جاتی رہی اور اس کی اس ویڈیو کو اس شیطان دنیا میں فروخت کیا گیا، یہاں اس بات کو بالکل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ عمران علی ہی صرف ایک درندہ ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑا مافیا ہے جو کہ گذشتہ چند سالوں سے یہ شیطانیت کا کھیل کھیل رہے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے حالانکہ زینب بچی کے قتل میں اتنے جھول ہیں کہ اس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے اور پولیس نے جھوٹ بولنے میں تو پی ایچ ڈی کررکھی ہے لیکن میں سردست صرف اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہر ذی شعور انسان اپنی آواز اٹھائے ورنہ ہم ایسی شیطانی دنیامیں رہ رہے ہیں جس کی شیطانیت پوری طرح سے انسانیت پر غالب آچکی ہے، خوش آئند بات یہ ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ نے اس انتہائی اہم ایشو پر ایک فوری جے آئی ٹی بنادی ہے جو آئندہ چند دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرئے گی تومزید حیرت انگیز انکشافات سامنے آئیں گے کہ درندے سے کارِندے تک کون کون اس شیطانیت کی دنیا میں ملوث ہے، نپولین کی کوٹیشن یاد آگئی کہ-:

"The world suffers a lot، not because the violence of bad people، but because of the silence of the good people"۔