1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اشفاق عباسی/
  4. میثاق جمہوریت سے میثاق عدلیہ

میثاق جمہوریت سے میثاق عدلیہ

غالباََ 2006 سے ’’میثاق جمہوریت ‘‘ معرض وجود میں آیا جس کے روح رواں بی بی صاحبہ اور میاں صاحب تھے اور اسکی تشہیر ایسے کی گئی اور اب تک کی جارہی ہے کہ ہم نے جمہوریت کو مضبوط کیا ہے اور جمہوری اقداد کو پامال ہونے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرلیا ہے لیکن وقت کی بے رحم تلوار نے اس اعلانیہ کو مسترد کردیا اور ان سیاسی’’اشرافیہ‘‘ کا وہ چہرہ اس مظلوم عوام کے سامنے لے آیا جس کا یہ حکمران تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، ہماری عوام تو یہ سمجھتی رہی کہ میثاق جمہوریت سے ہم خوشحال ہونگے، ہمار ا ملک ترقی کرے گا اور ہمیں روزگار کے مواقع ملیں گیااور سب سے بڑھ کر عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا مگر اس بیچاری عوام کو کیا معلوم تھا کہ اسCODکے پیچھے ہمارے حکمرانوں کے کیا مزموم عزائم تھے یہ بجائے عوام کی خوشحالی اور ترقی کے لیے کام کرتے انہوں نے اپنے اور اپنے بچوں کو خوشحال اور ان کا مستقبل تابناک بنانے کے لیے دنیا جہان میں نہ صرف جائیدادیں خریدیں بلکہ وہاں کے بینکوں میں اتنا پیسہ رکھوایا کہ وہاں کی حکومتیں پریشان ہوگئی کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ حکمرانی تو پاکستان میں کرتے ہیں اور اثاثے ہمارے ہاں رکھتے ہیں اور ہماری شہریت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس دولت کے انبار بنانے کے لیے ہماری اشرافیہ نے کیا کیا جتن نہیں کیے، ہمارے اداروں کو اپنی دہلیز کی باندھی بنا کے رکھا، جیسے ان اداروں کی کوئی وقعت نہیں بلکہ ایک فرد واحد کی بات ہی آخری اور حتمی ہے وہ جو کہہ دے وہ قانون ہے لہٰذا اس تناظر میں ہمارے تقریباََستر70 برس بیت گئے اور ہم جہاں سے چلے تھے آج بھی ٹرید میل کی طرح اسی مقام پر کھڑے ہیں۔

آج سات دھائیوں کے بعد عوام کی داد رسی کے لیے اگر ایک شخص آواز اٹھا کر کہتا ہے کہ خداراہ مجھ کو ایک سال کے لیے اس ملک کے ادارے چار کاموں کی یقین دہانی کروادیں تو ہمارا ملک خوشخال اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے اور وہ چار کام(تعلیم، لیڈرشپ، حق بات کہنا اور منافقت نہ کرنا) ہمارا بنیاد ی نصب العین ہو، آج اگر ایک شخص اٹھ کر پاکستان کے مظلوم عوام کے بنیادی حقوق کے لیے قانون کوحرکت میں لاتا ہے تو ہمارے سیاستدانوں کو یہ بات یکسر بُری لگتی ہے اور تقریباََ تمام اشرافیہ اس کے خلاف محاز کھولنے کی تیاری میں لگ جاتے ہیں حالانکہ ان چیف جسٹس صاحب نے پہلی گستاخی یہ کی کہ انہوں نے ان ہسپتالوں کا دورہ کیا جو کہ صوبہ پنجاب اور سندھ کے مین شہر میں یعنی لاہور اور کراچی باقی شہروں کے ہسپتالوں کی تو بات ہی کیا کرنی، ان ہسپتالوں میں تو جانیں بچانے والی ادویات بھی جعلی پائی گئی ہیں، دوسری گستاخی ان چیف نے یہ کی کہ اس غریب عوام کو ملاوٹ سے پاک اشیاء فراہم کی جانی چاہیں جبکہ روپیہ خالص چیزوں کا لیا جاتا ہے اور اشیاء ملاوٹ والی دی جاتی ہیں، تیسری گستاخی کہ ناجائز رکاوٹیں ہٹانے کے احکامات جاری کیے، چوتھی گستاخی میڈیکل کالجوں کی دل ہلا دینے والی فیسوں پر فیصلہ سنایا اور کیا کیا گستاخیاں گنواویں جائیں جو کہ ثاقب نثار صاحب نے حالیہ دنوں میں قانون کی بالا دستی قائم کرنے کے لیے کی ہیں جو کہ ہماری سیاسی اشرافیہ بلکہ بدمعاشیہ کو بالکل پسند نہیں آئیں۔

اب آتے ہیں کہ ہمارے چند بڑے سیاستدانوں نے عدالت عظمیٰ کو کچھ اس طرح لتھڑا ہے کہ ’’ججز انصاف کی فراہمی کے علاوہ دیگر سارے کام کررہے ہیں‘‘ کوئی کہتا ہے کہ ’’چیف جسٹس ہسپتالوں میں بھی ضرور جائیں لیکن اپنے گھر کا ضرور حساب رکھیں‘‘

میری سیاستدانوں سے یہ گذارش ہے کہ یہ تمام مداخلت چاہے وہ عدلیہ کی جانب سے ہو یا فوج کی جانب سے ہو اس کو عام فہم زبان میں’’جبری مداخلت‘‘ کہتے ہیں اور یہ اس وقت وقوع پزیر ہوتی ہے جب کوئی ایک ادارہ اپنا کام کرنا چھوڑ دے اور ہمارے ہاں تو دو اداروں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے جس میں مقننہ اور ایگزیکٹو دونوں شامل ہے اور شب و روز ایک نا اہل شخص کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کیا(حتیٰ کہ بیرونی کمپنیوں کی خدمات بھی شامل ہیں جن میں’’رابرئی گلوبل‘‘ فرم کی سرفہرست سے یہ دنیا کی سب سے مہنگی امریکن فرم ہے) واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہوئے کہ جب آئین سازی نہیں ہوگی، جب غریب عوام کے ووٹ کی ناقدری اسطرح کی جائے کہ مہنگائی کا ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کردیا جائے، جب عام عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جائے جب ان کا خون سڑکوں پر پانی کی طرح بہایا جائے جب مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو ٹھیس پہنچائی جائے جب امیر، امیر تر ہوتا جائے اور غریب، غریب تر ہوجائے جب کرپشن پورے ملک کو دھیمک کی طرح چاٹ رہی ہو جب اداروں کے ہیڈز ایک شخص کی غلامی کررہے ہوں تو پھر ریاست کو بچانے کے لیے جبری مداخلت ناگریز ہوجاتی ہے اور ہماری اشرافیہ/بدمعاشیہ کیسی ڈھٹائی سے اپنی ناہلی کو اس طرح کے غیرہ ذمہ دار انہ بیان دے کر خفت مٹانے کی کوشش کررہی ہے اور عدلیہ پر وار پر وار کیے جارہے ہیں اور رونایہ رویا جارہا ہے کہ پاکستان میں تقریباََ چھوٹی بڑی سبھی عدالتوں کو ملا کر تقریباََ اٹھارہ لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں اور صرف سپریم کورٹ میں تقریباََ38 ہزار مقدمات کا فیصلہ ہوناہے، گذارش ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں چھوٹی بڑی عدالتوں کو ملا کر تقریباََ تین کروڑ مقدمات پنڈنگ ہیں اور صرف انڈین سپریم کورٹ میں تقریباََ ساٹھ ہزار مقدمات کا فیصلہ ہونا باقی ہے مگر وہاں تو کسی سیاستدان کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ غیر ذمہ دار انہ بیان دے اور ایک اور اہم بات کہتا چلوں کہ انڈین سیاستدان چاہے جتنے بھی کرپٹ ہیں مگر وہ اپنی عدلیہ کی ایسے عزت کرتے ہیں جیسے ان کے لیے گیتا ہوتی ہے، جرمنی جب دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ پر بمباری کررہا تھا تو اس وقت چرچل نے پوچھا کہ کیا ہماری ’’عدالتیں کام کررہی ہیں‘‘ تو اس کو بتایا گیا کہ جی ہاں تو چرچل نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اگر عدالتیں اپنا کام کررہی ہیں تو ہمیں کوئی ہارا نہیں سکتا۔

لہٰذا میری اپنی اشرافیہ سے گذارش ہے کہ خداراہ پاکستان میں بھی عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں جو کہ اب انتہائی چابک دستی سے نا صرف اپنا کام کررہی ہیں بلکہ ریاست کے دوسرے معاملات کا بھی نوٹس لے کر عام عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے میری طرف سے عدلیہ کو پیشگی مبارکباد۔