1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اشفاق عباسی/
  4. سو موٹو کیوں نکالا؟

سو موٹو کیوں نکالا؟

جوان ہے عزم تو پھر ظلم کی بربادی باقی ہے

اندھیری رات ہے اب تک ابھی آزادی باقی ہے

کسی ریاست کو چلانے کے لیے تین ستون ہوتے ہیں جس میں ۱۔ مقننہ (جہاں قانون سازی ہوتی ہے) ۲۔ ایگزیکٹو ۳۔ عدلیہ اور ماڈرن ورلڈ میں چوتھا ستون میڈیا کو بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے موضوع پر آنے سے قبل چند سطور مقننہ اور ایگزیکٹو جیسے اداروں پر لکھنا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں ادارے اور حاص طور ایگزیکٹو سوائے ایک فرد واحد کے اشاروں پر کام کرنے کے کوئی ملکی خوشحالی اور قانون سازی کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔ مقننہ میں جو قانون سازی کروائی جا رہی ہےوہ بھی ایک نا اہل شخص کو پارٹی کا صدر بنے رہنے دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ کیا اس لیے ان لوگوں کو ملک کے سب کے بڑے ادارے مقننہ (قومی اسمبلی اور سینٹ) میں ووٹ دیکر بھیجا گیا کہ اسطرح کی قانون سازی کر کے ایک عام آدمی کے ووٹ کے حق کی تذلیل کی جائے۔ اب اس تمام تر پس منظرکو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ایک شخص عدلیہ میں سے اٹھ کر کہتا ہے کہ خداراہ میرا ساتھ دو اور اگر ایک سال تک سارے ادارے اپنا اپنا کام کریں اور کرپشن نہ کریں اور نہ ہی ہونے دیں تو ہمارا ملک خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے تو اس پر ایگزیکٹو کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ہر ادارہ اپنی اپنی ڈومین ( دائرہ اختیار) میں رہ کر کام کرے تو میری صرف یہ گزارش ہے جناب وزیراعظم خاقان عباسی سے (جس کے دل کا وزیراعظم نوازشریف ہے) کہ اگر آپ اور آپکا ادارہ عوام کی فلاح اور عام آدمی کی معیار زندگی کو بہتر نہیں بنائے گا تو پھر اگر عدلیہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز بھی کرے تو عوام کو یہ تجاوزات قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔

میں کوئی قانون کا طالب علم تو نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ آئین کی شق 184-3 کے تحت سپریم کورٹ کی رٹ کو سوموٹو (از خود نوٹس) لینے کا اختیار دیتا ہے اور یہ اختیار1973 کے آئین میں حق زندگی کو بنیادی حق فراہم کرتا ہے۔ اور سپریم کورٹ شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ اور تحفط کی ذمہ داری فراہم کرتی ہے اسوقت کسی بھی عام مظلوم آدمی سے پوچھ لیں تو ہو اپنی داد رسی کے لیے یا تو آرم چیف یا سپریم کورٹ کے چیف سے مدد کی درخواست کرتا نظر آئے گا ان تما م حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جناب ثاقب نثار نے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سب سے زیادہ از خود نوٹس لیے ہیں اور گذشتہ ماہ جنوری میں تقریبا 24 کے قریب سوموٹو ایکشن لیے گئےجو کہ سراسر ملک سب سے بڑی عدالت نے رائٹ ٹو لائف کو عملی طور عملی جامہ پہنایا ہے۔ کیونکہ یہ صوبائی، وفاقی وزرا، مشیر، ایگزیکٹو اور بیوروکریسی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرینگی تو بھی عام آدمی کی فلاح اور اسکی زندگی کی بقا اور انصاف کے حصول کے لیے عدالت عظمٰی کو تو دوسرے اداروں سے اوپر ہو کر اپنی ریاست کو اس بد معاشیہ سے بچانا ہے۔ اب آتے ہیں کہ اس بد معاشیہ کو سوموٹو ایکشن والی بات کیوں پسند نہیں آئی کیونکہ اس میں ان اداروں کی ناکامی اور انکی کرپشن نکل کر سامنے دیوار پر لکھی ہوئی نظرآنی شروع ہو گئی ہے، اور اسی لیے سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن کے لیے جتنی فعال اور متحرک ہے اس سے قبل اسکی مثال نہیں ملتی گذشتہ ماہ جنوری کے مہینے میں جو سوموٹو ایکشن لیے گئے وہ درج ذیل ہیں۔

پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی مہنگی فیسوں کے خلاف ازخود نوٹس

کراچی پر سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار پر از خود نوٹس

لاھور میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار اور بد حالی پر از خود نوٹس

PMDC کی کارکردگی اور بے ضابطگیوں پر از خود نوٹس

جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کا از خود نوٹس

قصور کی زینب بچی سے قتل کیس پر از خود نوٹس

ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب قتل کیس کے ملزم پر نئے الزامات پر از خود نوٹس

صاف پانی کی فراہمی کے لیے از خود نوٹس

کوہاٹ میں میڈیکل طالبہ عاصمہ کے قتل پر از خود نوٹس

مردان کی چار سالہ بچی اسما کے قتل پر از خود نوٹس

KPK کے وزیر مشتاق غنی کے بھائی کی ملازمہ کی ہلاکت پر از خود نوٹس

کراچی میں نجی اسکول چلانے والی NGO کو سندھ ایجوکیشن فاونڈیشن کی دھمکی پر از خود نوٹس

پائلٹوں کی جعلی ڈگریوں پر تقرری کے خلاف از خود نوٹس

مضر صحت دودھ کی فروخت اور بھینسوں کو انجکشن لگانے کیخلاف از خود نوٹس

ججز اور سرکاری افسران کی دہری شہریت کیخلاف از خود نوٹس

ہسپتالوں کے طبی فضلے کو ٹھکانے نہ لگانے پر از خود نوٹس

VVIP موومنٹ پر عوامی پریشانی سے متعلق از خود نوٹس

ہاوسنگ سوسائٹیوں کے فارنزک آڈٹ کے لیے از خود نوٹس

اسلام آباد میں غیر قانونی شادی ہالز کے خلاف از خود نوٹس

جعلی ادویات کی روک تھام کے لیے از خود نوٹس

شاہراہوں اور سٹرکوں پر رکاوٹوں اور بیئررز کے خلاف از خود نوٹس

یہ تو وہ ازخود نوٹسز ہیں جو کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ ماہ لیے اور جو ابھی فروری کے پہلے ہی دن چھ از خود نوٹس لے لیے ہیں جسمیں

شاہ زیب قتل کیس میں ملزم شاہ رخ جتوئی کی ضمانت کے خلاف از خود نوٹس

اسٹنٹ کی تیاری کے لیے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو ساڑھےتین کروڑ دینے پراز خود نوٹس

پاکستان کے بیرون ملک اثاثوں اور بنک اکاونٹس کی تفصیلات کے لیے از خود نوٹس

طلال چوہدری کو توہین عدالت کے خلاف از خود نوٹس

دانیال عزیز کی توہین عدالت کے خلاف از خود نوٹس

یہ تو وہ از خود نوٹسز ہیں جو کہ سردست یاد رہے اب آپ ہی اندازہ لگائیں کہ ان تمام نوٹسز میں کونسا نوٹس ایسا ہے جو کہ عوام کے مسائل سے ہٹ کر ہو۔

اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ پاکستان کی تاریخ میں جس خاندان نے سب سے زیادہ حکمرانی کی ہے وہ شریف خاندان ہی ہے اور آج حالت یہاں تک پہنچ گئی ہےیہ خاندان شریفاں اندرون لاھور سے نکل کر جاتی عمرہ اور پھر ایون فیلڈ کے فلیٹوں تک جا پہنچے اور ایک خبر کے مطابق اس وقت دنیا کے سات میں سے پانچ براعظموں میں ان خادموں کی جائیدادیں اور اس ملک کا عام آدمی پہلے سے زیادہ کسم پُرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اسی لیے جسٹس آصف کھوسہ نے شاید ان حکمرانوں کے لیے گاڈفادر اور سلین مافیا جیسے الفاظ کا چناو کیا اور یہ چناو واقعی بہت مناسب ہے ابھی تو گزرتے دنوں کے ساتھ ان کے وہ چہرے بے نقاب ہونگے کہ انسان تو دور کی بات شیطان بھی ان سے پناہ مانگے گا۔

انگریزی کی ایک کوٹیشن یاد آگئی

“One must beware of ministers who can do nothing without money، and those who want to do everything with money”