1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. لیجیے ایک اور بریکنگ نیوز

لیجیے ایک اور بریکنگ نیوز

آج کل جس طرح کے حالات چل رہے ہیں ایسے میں تو یہی لگتا ہے کہ مسکرانا منع ہے جس طرف دیکھو بری خبریں ہی سنائی دیتی ہیں ایسے میں بندے کی گھبراہٹ ہی نہیں جاتی اس ضمن میں میڈیا خاص اہمیت کا حامل ہے جنہوں نے ہر وقت سنسنی پھیلا ئے رکھنے کا عہد کر لیا اور اب تو یہ ٹرینڈ بن گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی بات کو اس طرح سنسنی خیز بنا دیا جاتا ہے کہ کیا کہیے۔
نیوز چینلز کی بات ہی مت کیجئے آپ خود ہی دیکھیے کہ جب بھی ٹی وی آن کریں اور نیوز چینل پر کریں تو کسی نہ کسی حادثے یا سانحے کی خبر ہی ملتی ہے، معجزہ۔ ہی ہوجاتا جب کوئی اچھی خبر سننے کو ملے۔
اب تو میڈیا ہر وقت بری خبروں کے تعاقب میں رہتا ہے اور ایسے میں اچھی خبر سامنے بھی ہو تو کوئی نہیں بتاتا کوئی نہیں سناتا نہ ہی اسے اپریشیڈ کیا جاتا ہے۔ مگر اگر کہیں کوئی حادثہ یا سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو ایک ایک لمحے کی کوریج کی جاتی ہے اور وہ بھی دکھایا جاتا ہے جو نہیں دکھانا چاہیے۔ ہم مانتے ہیں اس معاشرے میں بہت خرابیاں ہونگی مگر اچھائیاں بھی تو ہیں، ان کی طرف کسی کی نظر کیونکر نہیں جاتی اور نہ ہی ان پر کوئی بریکنگ نیوز بنائی جاتی ہے۔ روز جہاں ہزاروں حادثے ہوتے ہیں وہیں ہزاروں اچھے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جن کی مگر نہ خبر بنتی اور نہ کوریج ہوتی ہے۔ بری خبر کےلئے تو جگہ جگہ چوری چھپے بھی کیمرے لگائے جاتے مگر اچھی خبر کی ایک ہیڈ لائن تک بھی نہیں بنتی۔
اوپر سے ٹاک شوز جس میں اس طرح سیاسی فریقین گتھم گتھا ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے گلی کے ناسمجھ لڑکوں کی لڑائی ہورہی ہے ویسے آجکل تو وہ بھی ایسے نہیں لڑتے مگر یہ سیاست دان تو ان سے بھی گئے گزرے ہیں اور اسی طرح گفتگو میں سب ایک دوسرے کی عزتوں کو نیلام کر رہے ہوتے ہیں اور ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ سن کر آپ کو بھی شرم آ جاتی ہے مگر انہیں تو فرق نہیں پڑتا -
اسی طرح خبریں اس قدر سنسنی سے بھرپور کہ ہر طرف ان کی ہی سنسناہٹ سنائی دیتی ہے۔ ایک چھوٹی سی خبر کو بھی اس طرح سنسنی خیز بنا دیا جاتا ہے کہ بندہ حیران و پریشان ہو جاتا ہے جبکہ اندر کوئی معمولی سی خبر ہوتی ہے جو شاید اہمیت کی حامل ہی نہیں ہے۔ بریکنگ نیوز آجکل کا ٹرینڈ بن گیا ہے اور اس کی وجہ سے حقائق مسخ ہو رہے ہیں۔ اوپر سے جو الرٹ پروگرام ہیں جنہیں دیکھ کر بندہ سچ مچ گھبرا جاتا ہے کہ حالات اتنے خراب ہیں اور سوچنے لگ جاتا ہے کہ وہ سانسیں کیسے لے رہا ہے۔ ایسے ایسے واقعات دکھائے جاتے ہیں کہ بندہ ڈپریشن کا شکار ہو کر ذہنی مریض بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم جیسے ممالک جہاں گھر سے باہر زیادہ سرگرمیاں نہیں ہیں وہاں زیادہ تر خواتین کو بھی گھر میں ہی رہنا پڑتا ہے اور بچوں کے لئے بھی پارکس اور فن لینڈز کی کمی ہے۔ ان سب میں ٹی وی ہماری زندگیوں کا اہم ترین حصہ بن گیا ہے اور یہ ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو کنٹرول کر رہا ہے ایسے میں بہت ضروری ہے کہ ہم جو مواد دیکھ ہیں وہ درست اور صحیح ہو اور تصدیق شدہ ہو کیونکہ اس سے ہماری زندگیوں پر بہت اثر پڑتا ہے وہ ڈرامے ہوں، کارٹون ہوں یا خبریں، آجکل تو ڈرامے بھی ایسے آ رہے ہیں جن میں کہانی کم اور سنسنی زیادہ ہے۔ ہر طرف سازشیں ہی سازشیں دکھائی جارہی ہیں جنہیں دیکھ کر اچھا خاصا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے عورتیں تو باقاعدہ وہمی ہو جاتی ہیں اور شوہروں کی شامت آ جاتی ہے۔ بےشک ہمارے اس معاشرے میں آگاہی کا ایک اہم ذریعہ میڈیا ہے جو معاشرے کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسی سے ہمیں حقائق کا پتا چلتا ہے مگر یہ جو سنسنی اور بریکنگ نیوز کا سلسلہ ہے یہ حطرناک ہے پریشان کن ہے اس کے متعلق ہمیں سوچنا ہو گا اور اقدامات کرنا ہونگے۔

اسماء طارق

Asma Tariq

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔