1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. امیچور

امیچور

عمران خان نے شاندار فتح کے بعد اپنی تقریر میں پاکستان کے متعلق اپنا منشور بیان کیا جسے ملکی اور غیر ملکی دونوں سطحوں پر پذیرائی حاصل ہوئی اور جسے آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ بےشک 2018 کے الیکشن پاکستان کے تاریخ ساز الیکشن ہیں جو تمام تر ملکی اور غیر ملکی رکاوٹوں کے باوجود بہت پر امن طریقے سے کامیاب ہوئے اور شرپسند عناصر کو شکست نصیب ہوئی اور عمران خان نے واضح اکثریت کے ساتھ برتری حاصل کی، عوام نے اپنے ووٹ سے ثابت کہ وہ غیر جمہوری سیاست اور کرپٹ مافیا سے اب چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اور ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔

عمران خان نے فتح کے بعد عوام سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست کی طرح فلاحی ریاست بناناچاہتے ہیں جہاں مظلوم طبقے کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اور عوام کا پیسہ عوام پر ہی خرچ ہوگا اس سے ظاہر تو ہوتا ہے کہ وہ عوام کا درد محسوس کرتے ہیں اور عوام کی فلاح کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں اور پھر جس طرح انہوں نے کہا کہ سب کا احتساب ہوگا اور یہ مجھ سے شروع ہو گا جو کہ بہت اچھا اور مثبت عمل لگ رہا ہے، اس سے تو ظاہر ہے کہ اب احتساب کا عمل رکنے والا نہیں، وہ سب پیسہ جو عوام سے لوٹا گیا ہے اور باہر لے جایا گیا ہے اس سب کا احتساب ہوگا۔ اس لیے تو ان کے وزارت سنبھالنے سے پہلے ہی بہت سے لوگ بغاوت کر رہے ہیں تاکہ وہ کسی طرح اس عمل کو روک سکیں۔ مگر اب تو یہ دیکھنا ہے کہ سب آوازیں دم توڑتی ہیں یاں عمران خان کی دعوے، اپوزیشن تو انکو بار بار چلنج کر رہی ہے کہ وہ باتوں کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے مگر دوسری طرف عوام کی توقعات بڑھ رہی ہیں جو تبدیلی کے امین ہیں۔

عمران خان کے خارجہ پالیسی سے متعلق موقف کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی ہے، کئی ممالک کے سربراہان نے ان کا خیرمقدم کیا اور ان کے موقف کی تعریف کی ہے، ان میں امریکہ، سعودی عرب شامل ہے، دیکھنے میں تو یہ سب بہت اچھا لگ رہا ہے اور لگتا ہے کہ معاملات صلح وصفائی سے طے پا جائیں گے مگر اس کے لیے کڑی محنت کرنا ہوگی۔

اگرچہ اس فتح سے بہت سے تختے الٹے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں مگر اس کے ساتھ ہی اپوزیشن کا جو تاریخی اتحاد ہوا ہے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان، وہ سب کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے، سب کا یہی کہنا ہے کہ یہ اتحاد زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکے گا اور اختلافات کی نظر ہو جائے گا مگر دیکھتے یہ اتحاد کیا رنگ دکھاتا ہے اور حکومت کے لیے کیا کیا چلنجز کھڑے کرتا ہے اور یقینا کچھ چلنجز کھڑے ہو چکے ہیں اور ان میں سے سب سے بڑا چیلنج پنجاب میں حکومت بنانا ہے اور یہ آسان کام نہیں ہے۔

حال ہی میں قومی اسمبلی کا ممبران نے حلف لیا ہے اور اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات ہوئے ہیں اگرچہ پاکستان تحریک انصاف نے ہی کامیابی حاصل کی مگر اپوزیشن نے بھی ہنگامہ آرائی کرنے کی کسر نہیں چھوڑی جس نے یہ تو واضح کر ہی دیا ہے کہ آگے سب آسان نہیں ہوگا، ظاہری طور پر سب یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ سب ٹھیک مگر اندر اندر کچری کی دیگ پک رہی ہے۔ کچھ وزراء کے نام بھی فائنل کر لیے گئے ہیں جن میں سے کچھ تو بہت اچھے کھلاڑی ہیں اور کچھ بارے ابھی شکوک و شبہات ہیں۔

مگر اب پاکستان تحریک انصاف اور خاص طور پر عمران خان پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، عوام کو ان سے بہت زیادہ توقعات ہیں جو ایک طرف تو ان کےلیے خوش آئندہ بات ہے مگر دوسری طرف خطرناک بھی ہے کیونکہ زیادہ توقعات ہمیشہ بہت اعلٰی نتائج کی توقع رکھتی ہیں اور عمران خان کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ شروع میں ہی اعلی نتائج دے سکیں، اس کے لیے عوام کو حوصلہ رکھنا ہوگا اور اپوزیشن بھی رکاوٹیں کھڑی کرتی رہے گی۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عمران میں جوش ہے جذبہ ہے، اور یقینا وہ ایک اچھے انسان ہیں، ان کا ہر لفظ حوصلہ افزا ہے مگر اس بات سے آپ اتفاق کریں یا نہ کریں کہ ان کا سیاسی تجربہ ابھی اتنا نہیں ہے وہ اس حوالے سے ابھی تھوڑے امیچور ہیں اس لئے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بہت حوصلے اور سمجھ کے ساتھ معاملات کو سلجھانا ہے، معاملات میں ذرا سا تناو بھی حالات کو بگاڑ سکتا ہے اس لئے انہیں بہت سمجھداری سے حکومتی معاملات کو طے کرنا ہے۔ عمران خان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پاکستان پر ایسے حکومت کریں گے جیسے پہلے کبھی نہ کی گئی ہو مگر ان کے سامنے بہت سی مشکلات کھڑی ہیں انہیں ان کو بہت تدبر کے ساتھ طے کرنا ہے، ان میں سے کچھ مسائل ان کی اپنی جماعت کے ارکان بھی کھڑا کر سکتے ہیں اس لیے عمران خان کو انتہائی استقامت اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔ بےشک عمران خان نے بہت شاندار منشور دیا ہے مگر اب دعا ہے کہ وہ اور ان کی ٹیم اس پر عمل پیرا ہو سکیں۔

اب آنے حالات ہی بتائے گے کہ نئے پاکستان کی جانب کون کون سے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، امید کی جاتی ہے کہ یہ قدم مثبت تبدیلی لے کر آئیں گے۔

اسماء طارق

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔