1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. بابا جیونا/
  4. اصل بیچاری تو نگہت تھی

اصل بیچاری تو نگہت تھی


تمھیں کس بات کی پرواہ ہے میں ہوں ناں۔ میں سب سنبھال لوں گا بس تم ہاں کر دو۔ تمھیں کیا لگتا ہے میں تمھارا دشمن ہوں۔ تمھار ا پھوپھا ہوں۔ تم کیا چاہتی ہو یہ ساری جائیداد کسی کے بھی کام نہ آئے۔ دیکھو حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں اور حقیقت یہ ہے کہ تمھارا خاوند چند مہینوں کا ہی مہمان ہے۔ ہم چاہ کر بھی اس کو نہیں بچا پائیں گے اور پھر یہ گھر دکانیں زمین تم کیا سمجھتی ہو اسی طرح تمھارے پاس ہی رہے گی۔ سوچنا بھی نہ۔ تمھارے خاوند کے مرنے کے بعد تمھارا مستقبل کیا ہے کبھی سوچا ہے۔ بھکاریوں کی طرح در در دھکے کھاﺅ گی۔ عزت سے جینا چاہتی ہو تو میری بات مان لو۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ اگر جمیل مر گیا تو پھر ہم یہ سب بھی نہیں کر سکیں گے جو میرا پلان ہے۔
تمھارے خاوند کو ٹی بی ہے دمہ ہے شوگر سے اس کی ہڈیاں بھربھری ہو کر ختم ہو رہی ہیں۔ اتنے گلاس وہ دن میں پانی کے نہیں پیتا جتنے سیرپ پیتا ہے اور انجکشن لگواتاہے۔ اب تو مجھے تمھارے ہاتھوں اور کپڑوں سے بھی دواﺅں کی گندی بدبو آرہی ہے۔ کب تک دوائیوں کے سہارے اسے زندہ رکھو گی۔ کل میری ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے اب تو دوائیاں کھا کھا کے اس کے دونوں گردے بھی مکمل ناکارہ ہو چکے ہیں تم سمجھتی کیوں نہیں ہو۔
شگفتہ بے بسی کی تصویر بنی سر جھکائے اپنے پھوپھا کی ساری کڑوی کسیلی اور کسی حد تک سچی باتیں سن کر بھرائی ہوئی آواز میں بولتی ہے۔ تو بتائیں اس میں قصور کس کا ہے۔ جب میری شادی ہوئی اس وقت بھی یہ ساری بیماریاں اسی طرح تھیں سب کو پتہ تھا کہ میں بیوی بن کر نہیں ایک دوائی پلانے والی نرس بن کر اس گھر سے رخصت ہوئی تھی اب میرے ہاتھوں اور کپڑوں سے دواﺅں کی بدبو کے علاوہ اور کوئی خوشبو آئے بھی تو کیسے آئے۔ میری اماں میرے ابا زندہ ہوتے تو میرا بیاہ کبھی جمیل سے نہ کرتے۔ پھوپھا جی یہ بیاہ بھی تو تیرا ہی کیا دھرا ہے۔ کیا سوچ کر تم نے مجھ یتیم لاوارث کا اس ہڈیوں کے ڈھانچے سے بیاہ کیا تھا جمیل شادی کے بعد بیمار ہوتا تو میں اسے اپنا نصیب سمجھ کر قبول کر لیتی مگر اب میں کیا کروں مجھے تو کسی نے جمیل کو ایک نظر دیکھنے بھی نہ دیا پھوپھا میں تمھارے لالچ کی بھینٹ چڑھ گئی بتا تو سہی کتنے پیسے لیے تھے تم نے میری کیا قیمت لگائی تھی کیوں میرے ساتھ ہمدردیاں جتانے آجاتے ہو مجھے چپ چاپ اس آگ میں جلنے دو جس میں تم نے مجھے جھونک دیا تھا۔
جمیل کی پہلی بیوی بھی ان بیماریوں کی وجہ سے جمیل کو چھوڑ گئی تھی اگر مجھ سے جمیل کی اولاد نہیں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں جمیل کی پہلی بیوی سے بھی کوئی اولاد نہ تھی۔ میں تمھارے گھر میں بوجھ تھی سو تم نے اپنے کندھے سے اتا ر دیا اب کیا چاہتے ہو۔ شگفتہ مسلسل ہچکیاں لیتے ہوئے کسی معصوم سے بچے کی طرح اپنے پھوپھا سے کہہ رہی تھی تم لوگ سب جانتے تھے پھوپھا تم سب جانتے تھے۔ روپے پیسے کی چمک سے تیری آنکھیں چندھیا گئی تھی پھوپھا۔
دیکھو شگفتہ تم رانیوں کی طرح رہ رہی ہو کس چیز کی کمی ہے یہاں تمھیں۔ یہ دیکھو ریشمی قالین، یہ دیکھو مہنگے فانوس۔ یہ نوکر چاکر سب تمھارے لیے ہے شہزادیوں کی طرح زندگی گزار رہی ہو۔ کبھی اپنا بینک اکاونٹ دیکھا ہے۔ کبھی سوچا تھا تم نے کہ اتنا پیسہ تمھیں مل سکتا ہے۔ کبھی سوچا تھا کہ یہ سب آسائیشیں تمھیں ملیں گی۔ اگر تم جمیل سے شادی نہ کرتی تو غربت کی چکی میں پس پس کر کسی ویران خستہ حال کھنڈر جیسی ہو چکی ہوتی جہاں صر ف بھوت آسیب رہا کرتے ہیں غریب گھروں کی بیٹیوں کو تو خواب دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور پھر جس غریب بیٹی کا باپ مر جاتا ہے ناں وہ کسی ایک پہ نہیں پورے معاشرے پہ بوجھ ہوا کرتی ہے یہ دنیا انسانوں کی ہے فرشتے صرف آسمانوں میں یا کتابوں میں ہوتے ہیں۔ میں نے جو بہتر سمجھا کر دیا۔ اگر جمیل سے تمھار ا بیاہ نہ ہوتا تو کوئی تمھاری طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھتا تم ہی بتاﺅ کوئی ایک رشتہ بھی آیا تھا جو میں نے ٹھکرا دیا ہو تمھاری ڈھلتی عمر دیکھ کر میں نے جو فیصلہ کیا تھا وہی تمھارے لیے میرے لیے ہم سب کے لیے ٹھیک تھا۔ میری بات مان کر تم نقصان میں نہیں ہو۔ اپنا لباس دیکھو یہ گہنے کبھی تم نے خواب میں بھی دیکھے تھے جو تم روز پہنتی اور جب چاہتی ہو پرانے بیچ کر نئے خرید لیتی ہو۔
میں اب بھی جو کروں گا تمھارے بھلے کے لیے ہی کروں گا۔ اگر تم چاہتی ہو کہ یہ سب ہمیشہ تمھارے پاس رہے یہ نوکر چاکر بنگلہ گاڑی بینک بیلنس کوئی تم سے نہ چھینے تو ابھی وقت ہے میری بات مان لو۔ تم کیا سمجھتی ہو جمیل کے بھائی بھابیاں تمھیں اچھا چاہتے ہیں۔ آج جمیل کو آنکھیں بند کرنے دو یہ لوگ تمھیں دھکے مار مار کر اس حویلی سے نکال دیں گے یا نوکروں والے کوارٹر میں کباڑ کی طرح کہیں پڑی رہو گی۔
پھوپھا جی میرے باپ کے مرنے کے بعد میں نے تمھیں ابا کا اور پھوپھی کو اماں کا درجہ دیا ہے تمھاری ہر بات حکم سمجھ کر مانی بتاﺅ اب تم کس آگ میں جھونکنا چاہتے ہو۔ کیا کرنا چاہتے ہو۔ یا مجھ سے کیا کروانا چاہتے ہو۔ تم جو بھی کہو میں کرنے کو تیار ہوں۔
شگفتہ کا پھوپھا اپنے مکار چہرے پہ معنی خیز مسکراہٹ لاکر بڑے دھیمے لہجے میں کہتا ہے دیکھو شگفتہ تمھاری پھوپھی امید سے ہے اور میں چاہتا ہوں تم بھی امید سے ہونے کا ڈرامہ کرو۔ تمھارے اور میرے سوا کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوگی اور جس دن تمھاری پھوپھی کے گھر اولاد پیدا ہوگی میں چپکے سے تمھارے ساتھ لاکر ڈال دوں گا۔ تمھارے پیٹ میں جو رسولی ہے اس کا فائدہ اٹھاﺅ۔ میں سب بندو بست کر لوں گا جس ہسپتال میں تمھاری پھوپھی کا آپریشن ہوگا اس دن اسی ہسپتال میں تمھارا رسولی کا آپریشن کروائیں گے بس تم ہاں کرو اور باقی مجھ پہ چھوڑ دو۔ سب سمجھیں گے یہ اولاد تمھاری اور جمیل کی ہے۔ اس طرح اگر جمیل مر بھی گیا تو تمھارے حصے کی یہ ساری جائیداد ہمارے پاس رہ جائے گی۔ جمیل کے آنکھیں بند کرنے سے پہلے اس جائیداد کا وارث پیدا کر نا ہوگا۔ شگفتہ تم سمجھ رہی ہو نہ۔ شگفتہ نے منہ سے کچھ بھی کہے بغیر اثبات میں سر ہلا دیا۔
مبار ک ہو جمیل تم باپ بننے والے ہو۔ شگفتہ نے جمیل کو خوش خبری سنائی جمیل یہ خبر سنتے ہی جیسے خوشی سے پاگل ہوگیا۔ اپنی کھانسی کو روکتے ہوئے لیٹے لیٹے کروٹ بدل کر جمیل نے شگفتہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا شگفتہ کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں بڑے پیار سے پکڑ کر انتہائی جذباتی انداز میں کہنے لگا شگفتہ تم نے یہ خبر سنا کر مجھے جینے کی امید دے دی ہے شاید اب میں کچھ سال اور جی سکوں گا بس آج سے تم کوئی کام نہیں کرو گی بس میرے سامنے رہو گی میری اس امانت کا بہت خیال رکھنا شگفتہ شاید یہ میری زندگی کی آخری خوش خبری ہے جو تم نے ابھی مجھے سنائی اب تمھاری خوراک کا صحت کا اور باقی ہر طرح کا خیال میں خود رکھوں گا۔ تمھارے دم سے میرے گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔ اب روز ڈاکڑ تمھیں چیک کرنے آیا کرے گا۔ میں ہر طرح کا بندوبست آج ہی کرلوں گا۔ شگفتہ یہ خوشی جلدی میری جھولی میں ڈال دو۔
پوری زندگی پریشانیوں اور بیماریوں سے لڑتے گزر گئی ایسا لگتا تھا زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں لیکن اب میں اپنی اولاد کے لیے جیوں گا بہت شکریہ شگفتہ بہت شکریہ۔ تم نے جینے کا مقصد دے دیا۔ یہ خبر سننے کو تو میرے کان ہی ترس گئے تھے شگفتہ میں آج بہت خوش ہوں۔ لوگ سچ کہتے ہیں ” اے اللہ تیرے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں “
جمیل میری ایک خواہش ہے شادی کے اتنے سال بعد اللہ نے ہمیں اولاد جیسی نعمت دینے کا فیصلہ اگر کر ہی لیا ہے اگر ہماری قسمت جاگ ہی گئی ہے تو میں یہ اولاد اپنی پھوپھی کے گھر پیدا کرنا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ جب تک بچہ پیدا نہ ہوجائے میں وہاں رہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے جمیل بہت سارے زنانہ مسائل ہوتے ہیں آئے دن چیک اپ کے لیے ہسپتال جانا پڑتا ہے یہاں میرا خیال کوئی نہیں رکھ پائے گا ویسے بھی تمھاری بھابیاں مجھے پسند نہیں کرتیں جب ڈاکٹر ڈلیوری کی تاریخ بتا دیتا ہے تو ایک حاملہ عورت کے ساتھ تیمار داری کو ایک عورت ہی ہونی چاہیے میں چاہتی ہوں جب ہمارا بچہ پیدا ہو تو میری پھوپھی پاس ہو میں کسی قسم کا کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتی میں اس قیمتی پھول کو تمھاری امیدوں کے گلشن میں پروان چڑھاﺅں گی بس تھوڑا سا میرا ساتھ دو جمیل اور میں جو کہوں میری بات بس مان لینا اسی میں ہماری اور ہمارے آنے والے بچے کی بہتری ہے۔
جمیل آپ اپنا خیال رکھیں اور مجھے اجازت دیں کہ میں جاﺅں اور ہمارا بچہ لے کر جلد گھر واپس آجاﺅں۔ جمیل کے پاس ہاں کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ اپنے باپ بننے کی خبر سن کر جمیل اتنا خوش تھا کہ کچھ بھی کر گزرتا۔ جمیل نے شگفتہ کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا شگفتہ خود کو تنہا ء مت سمجھنا بے شک میں بیمار ہوں مگر تمھارے لیے اپنی اولاد کے لیے میں ان بیماریوں سے بھی لڑوں گا اور ایک خاوند ایک باپ ہونے کی تمام ذمہ داریاں بھی نبھاﺅں گا اللہ تمھیں بھی ہمت دے اور ہماری خوشیوں کو کسی کی نظر نہ لگے آمین۔ اگر ضرورت پڑے تو میں بھی وہاں رہ لوں گا۔ شگفتہ نے کہا نہیں نہیں آپ وہاں مرغیوں کے ڈربے جتنے گھر میں کیسے رہیں گے۔ بس کچھ دن کی ہی تو بات ہے۔ میں ڈلیوری کے فوراََ بعد ہمارے بچے کو لے کر واپس آجاﺅں گی۔
جیسے ہی ڈاکٹر نے شگفتہ کی پھوپھی کو بچے کی ڈلیوری کی تاریخ بتائی شگفتہ کے پھوپھا نے ہسپتال میں دو کمرے لے لیے اور شگفتہ بھی ہسپتال میں داخل ہوگئی۔ ایک ہی دن شگفتہ کا رسولی کا آپریشن ہوا اور شگفتہ کی پھوپھی کے گھر پیاری سی مگر نصیبوں جلی بیٹی نے جنم لیا۔ شگفتہ کی پھوپھی بے ہوش تھی جب اس کے پھوپھا نے اپنی بیٹی اٹھا کر شگفتہ کے ساتھ لیٹا دی۔
ڈاکٹر نے جمیل کو جواب دے دیا تھا آٹھ سال کی نگہت اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے ہسپتال کے بیڈ کے سرہانے بیٹھی اپنے ابو کا سر دبا رہی تھی اور جمیل انتہائی مایوس نظروں سے معصوم سی نگہت کے منہ کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے کوئی مسافر آنکھوں میں منزل کے خواب سجائے ڈھلتی شام کے سورج کو الوداع کہہ رہا ہو۔ اچانگ ڈاکٹر نے آکر شگفتہ سے کہا کہ آپ اپنے مریض کو گھر لے جائیں تاکہ اپنے زندگی کے باقی دن یہ اپنے خاندان کے ساتھ گزار سکے۔ ہسپتال سے واپس آکر جمیل نے اپنی تمام جائیداد نگہت کے نام کروادی اور چند ہی دنوں میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ نگہت جمیل کی میت سے لپٹ لپٹ کر زاروقطار رو رہی تھی نگہت تو سچ مچ خود کو آج یتیم سمجھ رہی تھی۔ شگفتہ اور اس کے پھوپھا اپنے مقصد میں کامیاب ہونے جارہے تھے۔
اب کبھی کبھی شگفتہ کا پھوپھا نگہت سے ملنے آتا بڑا پیار جتاتا لیکن نگہت کبھی بھی اسے ان نظروں سے نہ دیکھتی جن کی امید شگفتہ اور اس کے پھوپھا کو تھی۔ ایک دو بار شگفتہ کا پھوپھا نگہت کو اپنے گھر لے گیا تاکہ دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ گھل مل سکے مگر نگہت نے ایک رات بھی اس گھر میں رہنا پسند نہ کیا وہ ہر وقت اپنے ابا جمیل کو یاد کرتی رہتی روتی رہتی۔
سب سے بڑئی بات جس ماحول میں نگہت نے آنکھیں کھولی تھیں اس کے لیے شگفتہ کے پھوپھا کے گھر کے ماحول کو تسلیم کرنا اس تعفن ذدہ ماحول میں ڈھلنا انتہائی مشکل تھا نگہت کو گندا رہنے والے بچوں سے کوفت ہوتی تھی اسے اس گھر سے بدبو آتی تھی اسے اپنی اصلی ماں کے ہاتھوں کے دھلے برتن پسند نہیں تھے۔ نگہت غریب میلے کچیلے بچوں کو کبھی بھی اپنا تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی۔ جمیل کے بہن بھائیوں سے شگفتہ نے نگہت کو کبھی ملنے نہ دیا اور شگفتہ کے رشتے داروں کو نگہت نے کبھی قبول نہ کیا۔
وقت کا بے لگام گھوڑا اپنی رفتار سے بھاگتا رہا اور نگہت تقریباََ بارہ سال کی ہوگی جب ایک دن نگہت سکول گئی ہوئی تھی شگفتہ کو ہارٹ اٹیک ہوا شگفتہ دوسری ہچکی بھی نہ لے سکی اور خالق حقیقی سے جاملی۔ اب نگہت اپنے حقیقی ماں باپ کے زندہ ہونے کے باوجود یتیم ہوگئی حقیقی بہن بھائیوں کے ہونے کے باوجود نگہت لاوارث ہوگئی تھی۔ نگہت کے سب رشتے سلامت تھے مگر نگہت تو جمیل کی بیٹی تھی جو مر چکا تھا شگفتہ کی بیٹی تھی جو مر چکی تھی۔ نگہت کے ایک ماں باپ لالچ کی موت اور دوسرے ماں باپ حقیقی موت مر چکے تھے۔ نگہت بیچاری اب اصلی بیچاری تھی۔

بابا جیونا

بابا جیونا  جن کا اصل نام نوید حسین ہے ایک سرکاری ملازم اور ایک بہترین لکھاری ہیں۔