1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. بابا جیونا/
  4. دوسری کالپکا

دوسری کالپکا

پھرتیلے مضبوط بدن دراز قد اور نوک دار مونچھوں والا بلندا چھوٹے درجے کا زمیندار تھا۔ اس کی ملکیت پرکھوں سے ملی چھ بیگہ انتہائی ذرخیز زمین تھی۔ پچھلے نو سال سے نگو بیاہ کر بلندا کی زندگی میں آئی۔ گورنمنٹ کے سالانہ کیلینڈر کی طرح ہر سال بلندا کے لیے ایک نیا بچہ پیدا کرنا تو جیسے نگو کی ذمہ داری تھا۔ اس بار کمزوری اور خون کی کمی کی وجہ سے اگر پانچویں مہینے بچہ ضائع نہ ہوتا تو آج نگو کی کوکھ سے نوواں راج دلارا جنم لے چکا ہوتا۔ اس بار جس دن سے نگو حاملہ ہوئی پھر بیمار ہوئی اور دیہاتی ہسپتال سے ہوکر واپس گھر آئی بلندا نگو سے پرے پرے رہتا۔ بات بات پہ اکھڑ جاتا۔ پچھلے نو سالوں میں شاید نگو کو ہر رات سونے سے پہلے بلندے کے مضبوط بدن ہقے کے دھوئیں والی بدبودار سانسوں کی ہلکی ہلکی ٹکور لینے اور بلدیہ کے سرکاری نل جس میں پانی کی جگہ ہوا کے غر غر کرتے سوٹوں ایسی آواز جیسے بلندے کے خراٹوں کی لوری سننے کی بھی عادت ہو گئی تھی۔ دن بھر کی تھکی نگو کے بدن پہ جب تک بلندا اپنے مردانہ لمس کا پھاہا نہ رکھ دیتا اسے نیند ہی نہ آتی۔ نگو سے بات بات پہ مار پیٹ کرنا تو پہلے بھی بلندے کا وطیرہ تھا لیکن اب مار پیٹ کے ساتھ ہر بار وہ نگو کو دوسری شادی کی دھمکی دیتا۔ اسے ذرا ذرا سی غلطی کی پاداش میں گھر سے نکال دیتا۔ نگو بیچاری اپنی ہمسائیوں کے گھر یا چاچے ملاں گارڈ کے گھر گھنٹے دو گھنٹے روتے ہوئے گزارتی۔ ہر بار چاچا ملاں گاؤں کا بڑا ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے نگو کے سر پہ شفقت سے ہاتھ رکھتا۔ بڑے بزرگوں کی طرح بلندے کو دوچار گالیاں دیتا اور نگو کو پھر بلندے کے رحم و کرم پہ اس کے گھر چھوڑ آتا کیوں کہ چاچے ملاں کے پاس بھی دوسرا کوئی چارہ نہ تھا۔ نگو کا باپ مر چکا تھا اس کی اماں ختم ہوتے ڈیزل والی بیڈ فورڈ گاڑی کی طرح زندگی کے آخری ہچکولے لے رہی تھی۔ نگو کا اکلوتا بھائی چور راستے سے اپنے آوارہ اوباش دوستوں کے ساتھ یونان گیا اور پھر کبھی واپس لوٹ کر نہیں آیا۔ شاید نگو کے بھائی عمری کا لڑکپن یورپ کی ننگ دھڑنگ خوبصورتیوں عیاش دلوں کو موہ لینے والی غلاظتوں کے نیچے کہیں دب کر رہ گیا۔ اس لیے بلندے کا ہر ظلم اپنا نصیب اور بلندے کا حق سمجھ کر سہنا نگو کی قسمت بن چکا تھا۔ بلندا اب آئے روز دوستوں کے ساتھ تاش کھیلنے کے بہانے اپنے کھیتوں کو یا کسی دوست کے کھیتوں کو پانی دینے میں ہاتھ بٹانے کے بہانے گھر سے جاتا اور رات گئے تک گھر واپس نہ آتا۔ پچھلی رات جب کبھی بلندا گھر واپس آتا تو نگو اپنے بچوں کو لوریاں سناتے سناتے سو چکی ہوتی۔ اگر کبھی بلندا جلدی واپس آ بھی جاتا تو بنا کوئی بات کیے یا کچھ کھائے پیئے چپ چاپ ایسے سو جاتا جیسے کسی جادوگر نے بلندے کے بدن سے تمام مردانہ اعضاء اچک لیے ہوں۔ بلندے کو پاس لیٹی مخالف جنس اپنی بیوی نگو کی موجودگی کا احساس تک بھی نہ ہوتا۔ پچھلے نو سالوں میں ہر رات نگو کے پلو کو اوڑھنا بنا کر سونے والا بلندا نگو کے شباب کو بچھونے کی طرح مسلنے والا بلندا اب آہستہ آہستہ نگو سے ایسے منہ پھیرنے لگا تھا جیسے کوئی بیمار آدمی کھانے پینے سے منہ موڑ جائے۔ اب نگو نے بلندے کا انتظار کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اس نے بھی گزشتہ نو سالوں میں بلندے کے ساتھ جاگی تمام راتوں کی نیند پوری کرنے اور بلندے کے چوڑے سینے پہ سو کر گزارے سنہری لمحوں کی یاد کے سہارے راتیں گزارنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ نگو جانتی تھی کہ ان کے کھیتوں کو پانی لگنے کا وارہ مہینے کے کس دن ہوتا ہے مگر وہ بلندے کے جھوٹ کو جان بوجھ کر سچ مان لیتی اور بلندے کی مار پیٹ کے ڈر اور خوف سے اندر ہی اندر کُڑھتی رہتی۔ اپنے لبوں پہ کبھی بھی حرف شکایت نہ لاتی۔ نگو نے پورے آٹھ ماہ بیاہی بیوہ کی طرح گزار دیے۔ بلندا اب نگو کے ساتھ ساتھ گھر کے کسی کام میں بھی دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ گندم پیسنے والی چکی پہ گندم پیسوانے سے لیکر گھر کے دال پانی سبزی تک ہر کام نگو کو خود کرنا پڑتا۔ دونوں بھینسیں بلندے نے بیچ ڈالی تھیں۔ بھینسوں کو بیچ کر حاصل ہونے والے پیسوں کا کیا کیا نہ نگو میں پوچھنے کی ہمت ہوئی نہ ہی بلندے نے نگو کو بتانا ضروری سمجھا۔

ننگے پیر، کمر پہ پانی کی بھری مشک لادے جیرا گاؤں کے باقی گھروں کی طرح ہر روز بلندے کے گھر بھی پانی بھرنے آتا۔ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف نگو اداس پریشان کبھی چھپر کے نیچے بیٹھی سویٹر بن رہی ہوتی۔ کبھی سوت کات رہی ہوتی۔ کبھی جلتے بجھتے چولہے کے پاس بیٹھی خیالوں کے ادھیڑ بن میں مصروف ہوتی۔ آج بھی نگو چرخے پہ اداسیوں پریشانیوں کی پونیاں کات رہی تھی جب جیرا ایک طرف جھک کر گھڑے میں مشک سے پانی انڈیلتے ہوئے نگو کی طرف دیکھ رہا تھا۔ انیسویں کے چاند جیسا نگو کا حسن کتنا بھلا لگ رہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے آٹھ بچوں کی ماں ہونے کے باوجود نگو کا ماند پڑتا حسن جیرے ماشکی کو ایک وبائی مرض کی طرح اپنے شکنجے میں جکڑ رہا تھا۔ پہلی بار جیرے نے ایک سورج مکھی کے پھول کو اداسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کھلا ہوا دیکھا۔ شاید نگو نے بھی جیرے کی آنکھوں سے نکل کر نگو کی روح تک سرائیت کرتی نظروں کو بھانپ لیا تھا۔ جیرے کی معنی خیز سر سے پیروں تک تاڑتی ہوئی نظریں نگو کے بدن ٹانگوں میں جھرجھری پیداء کر رہی تھیں۔ نگو نے کچھ کہے بنا چرخے کے تکلے پہ چڑھی پونی کو ادھورا چھوڑا اور دوپٹہ سنبھالتے ہوئے مسکراتی ہوئی اٹھ کر کچے کوٹھے میں بچھی منج کی چارپائی پہ جا بیٹھی۔

سکینہ نے بلندے کا پسینہ صاف کر تے ہوئے کہا زمین بیچنے کے لیے گاہک ڈھونڈو پہلے زمین کے کاغذ تو بنواؤ۔

سکینہ گاؤں کی تیز طراز عورت تھی اس کا شوہر شہر میں رکشہ چلاتا تھا وہ مہینے میں ایک آدھ بار گھر آتا۔ سکینہ کے دونوں بیٹے فیصل آباد میں کپڑے کی مل میں کام کرتے تھے۔ وہ بلندے کی بیوی والے تمام فرائض بخوبی پورے کر رہی تھی۔ کچھ ہی ماہ ہوئے تھے جب سکینہ نے نگو والی جگہ لے لی تھی۔ ان چند مہینوں میں سکینہ صرف نگو کا ہی نہیں بلکہ نگو کے بچوں کا حق بھی کھا رہی تھی۔ دونوں بھینسوں کی قیمت اپنی بلندے کے ساتھ گزاری راتوں کی قیمت وہ وصول کر چکی تھی۔ اب سکینہ کی نظر بلندے کی زمین پہ تھی۔ ناجانے سکینہ میں ایسی کون سی خوبی تھی جو بلندا اپنا سب کچھ مال دولت بیوی بچے سب سکینہ پہ قربان کر دینا چاہتا تھا۔ اللہ جانے وہ کیا بات تھی جس نے بلندے کو اس کی بیوی نگو سے دور کردیا تھا۔ جب بھی بلندا سکینہ سے شادی کی بات کرتا وہ ہر بار اسے کوئی بہانہ بنا کر ٹال دیتی۔

آج بلندے کو مجبوراََ گھر جلدی جانا پڑا۔ سکینہ کا بڑا بیٹا فیصل آباد سے کچھ دن کی چھٹی آرہا تھا۔ سکینہ نے کہا کوئی بات نہیں آج تم نگو کے پاس چلے جاؤ دو چار دن کی ہی تو بات ہے۔ چند دن میں زاہد واپس چلا جائے گا۔ بلندا سکینہ سے ناراض ہو رہا تھا کہ کب تک تمھارے بیٹے اور تمھارا خاوند ہمارے راستے کی دیوار بنے رہیں گے۔ بھینسیں بھی بیچ دی ہیں زمین بھی بیچنے کو تیار ہوں پتہ نہیں تم کیا سوچ رہی ہو کس بات کی دیر ہے میری سمجھ میں تو نہیں آرہا تم کیا چاہتی ہو۔ میں نگو سے اپنے بچوں سے جان چھڑواتا ہوں تم اس گھر کی جان چھوڑ دو۔ چلو کہیں دور جاکر اپنی دنیا آباد کرتے ہیں۔ سکینہ نے کہا ٹھیک ہے بس آج تم جاؤ اور زمین بیچنے کی تیاری کرو کوئی گاہک ڈھونڈو جتنی جلدی زمین بیچو گے اتنی جلدی تمھارے سارے خواب پورے ہوں گے۔ آج تم جاؤ جتنے دن زاہد ادھر ہے تم ادھر مت آنا اور اتنے دنوں میں تم اپنی زمین بیچ لو۔ جیسے ہی زاہد جائے گا ہم بھی کہیں چلے جائیں گے۔

بچے سو چکے تھے نگو اور جیرا ماشکی بے فکر ہوکر ایک چارپائی پہ بیٹھے ایک دوسرے کو کھانا کھلا رہے تھے۔ شنیل کے تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوا جیرا ماشکی بلندے کی جگہ لے چکا تھا۔ نگو اور جیرے کو یقین تھا کہ بلندا اگر آیا بھی تو حسب عادت رات کے کسی پچھلے پہر ہی آئے گا۔ دیے کی ٹمٹماتی روشتی میں بلندا میلے کچیلے ننگے پاؤں والے گاؤں کے کمی جیرے ماشکی کو نگو کی چارپائی پہ دیدہ دلیری سے بیٹھا دیکھ کر اپنی موت مر چکا تھا۔

بابا جیونا

بابا جیونا  جن کا اصل نام نوید حسین ہے ایک سرکاری ملازم اور ایک بہترین لکھاری ہیں۔