1. ہوم/
  2. غزل/
  3. ڈاکٹر ثروت رضوی/
  4. جو کچھ نہیں کہا گیا جو کچھ نہیں سنا گیا

جو کچھ نہیں کہا گیا جو کچھ نہیں سنا گیا

جو کچھ نہیں کہا گیا جو کچھ نہیں سنا گیا
دست دعا پہ رکھ دیا رزقِ ھوا کیا گیا

باقی تھی داستان بھی ملنے کو تھی امان بھی
منظر بدل دیا گیا پردہ گرا دیا گیا

منصف تو غیب میں رہا با اختیار کون تھا
صدیوں کا فیصلہ تھا جو پل میں سنا لیا گیا

رخ سےنقاب ہٹ گیے، اور فاصلے سمٹ گیے
پھر آگہی عطا ھوئی ہر نقش ہی لکھا گیا

ضبط آزما مزاج تھا، خود کے لیے خراج تھا
ہونٹوں کو سی لیا گیا اشکوں کو بھی پیا گیا

پیوند اشک ناتواں اور تار تار قلب و جاں
دامن رفو کیا گیا اور چاک کو سیا گیا

طاقِ سرائے دل میں تھا روشن نظر کے تل میں تھا
کیسے کہوں ہے تیرگی، ثروت مرا دیا گیا