تونے گلزار بنایا مری تنہائی کو
مرشدی دل ہے فقط تیری پذیرائی کو
بخش دے دل کو شفا یا مرا دل ہی نہ رہے
تو نہیں ہے تو بھلا کون مسیحائی کو
معاملہ تیرے حوالے تو ہی ضامن مولاؑ
میں سزا دے نہیں سکتی ترے مولائی کو
اک ترے نام کے صدقے میں رہی حرمتِ جاں
کبھی خاطر میں نہیں لائی ھوں رسوائی کو
اے شہنشاہ نجف مالک کن بہرِ خدا
بخشئے رنگِ بصیرت مری بینائی کو
بھیج دیں اور کمک اور کمک اور کمک
حوصلہ چاہیے اب درد کی پیمائی کو
حاملِ مرضی رب صاحب لولاک و قلم
آپ ہی دیں گے سند اب مری سچائی کو
تھک گئے نطق و بیاں حرف و قلم المددے
جانے کیا روگ لگا ہے مری گویائی کو