1. ہوم
  2. کالمز
  3. فیصل رمضان اعوان
  4. ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے

ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے

پنجاب کے مختلف علاقوں میں ان دنوں گندم کی کٹائی زوروشور سے جاری ہے۔ بارانی علاقوں میں کٹائی کا عمل تقریباََ مکمل ہوچکا ہے جبکہ نہری علاقے جہاں گندم کے فصل کو پانی دیا جاتا ہے وہاں یہ سلسلہ کہیں کہیں اب شروع ہو رہا ہے اور کچھ علاقوں میں ابھی کٹائی ہونا باقی ہے۔ ہم چونکہ بارانی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں زیر زمین پانی بھی بہت گہرائی میں ہے اور ہمارے لوگوں کو زراعت میں اتنی دلچسپی بھی نہیں ہے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے آج کل کچھ لوگ جدیدیت کی طرف بھی آرہے ہیں۔ منی ڈیم کنووں اور بور کی مدد سے پانی حاصل کرکے زمینوں کو سیراب کیا جارہا ہے اور مختلف فصل سبزیاں اگائی جارہی ہیں لیکن بہت کم تعداد میں لوگ اس طرف آئے ہیں۔

تو یوں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہمارے اس پوٹھوہاری علاقے تلہ گنگ کے گردونواح میں گندم کی کٹائی کا کام مکمل کرلیا گیا ہے۔ اب ہر طرف تھریشر سے اٹھتے گردوغبار ہیں جو دن بھر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ ماضی سے بالکل مختلف زمانہ ہے اس وقت ہم ایک دوسرے زمانے میں داخل ہوچکے ہیں۔

آج کی تحریر کا مقصد ماضی کی کچھ یادوں کو ہی تازہ کرنے کا ہے چونکہ موسم بھی گندم کی کٹائی کا ہے اور ہمارا آج کا موضوع بھی یہی ہے تو ہم ذرا اسی اور نوے کی دہائی میں یادوں کے سہارے واپس اسی سہانے زمانے میں چلتے ہیں اور ان بیتے سنہری دنوں کی یاد میں کچھ لمحے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی اور نوے کی دہائی کا ذکر اس لئے ضروری سمجھا کہ یہی وہ دن تھے جب ہم نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور والدین کا ہاتھ بٹانے کا عملی کردار بھی ادا کیا۔ بے شک وہ کردار ہم سے زبردستی ادا کروایا گیا لیکن ہم اس کا مکمل حصہ تھے اور آج وہ بیتے دن وہ سہانے دن بہت یاد آتے ہیں۔ ہاں کچھ دماغ سے محو بھی ہوئے کیونکہ اب ہم چپکے سے جوانی کی دہلیز کو پار کرچکے ہیں اور اس عمر میں اکثر بھولنے کی عادت بھی ہو جاتی ہے اور آج کل تو آئے روز ہمارے ساتھ کوئی ایسا واقعہ ہوہی جاتا ہے جس میں ہمیں یہ پریشانی لاحق رہتی ہے کہ واقعی بڑھاپا کتنا مشکل ہوتا ہوگا جو بہت قریب بھی آچکا ہے۔

صبح سویرے فجر کی اذان سے قبل کسان حضرات اپنی کھیتوں میں گندم کی کٹائی میں جانے کے لئے اٹھ جایا کرتے تھے گھر کی عورتیں روٹیاں پکانے اور لسی مکھن بنانے کے کام کو جلد نمٹاکر مردوں کے شانہ بشانہ پورا دن گندم کی کٹائی میں مصروف عمل رہا کرتی تھیں۔ نماز ظہر سے تھوڑا پہلے کھانے اور چائے کا وقفہ ہوتا تھا اس سے قبل پانی کے ساتھ گڑ کھانے کا ایک آدھ وقفہ بھی ہوتا تھا جو بہت ہی مختصر وقت کے لئے ہوتا تھا۔ نماز ظہر کی ادائیگی انہیں کھیتوں میں لگے گھنے درختوں کے نیچے ادا کی جاتی تھی اور کچھ وقت سستانے کے بعد پھر سے کھیتوں میں یہی عمل دہرایا جاتا تھا۔

عصر کی نماز کے بعد چھٹی ہوتی تھی اور لوگ گھروں کو روانہ ہوجایا کرتے تھے۔ تب ٹریکٹر نہ ہونے کے برابر تھے اکثر کسان اپنے جانور گائے بیل کی مدد سے ہل چلا کر اور زمین کو اچھی طرح ہموار کرکے اس میں گندم یا اور فصل بویا کرتے تھے۔ یقین کریں اس زمانے میں لفظ خیروبرکت کی اہمیت کا ذرا بھر علم نہ تھا، بالکل سمجھ نہیں تھی گزرے دنوں کی خیروبرکت کا آج سے موازنہ کیا تو اپنا دامن خالی پایا اور غموں کی اس دنیا میں اپنے آپ کو غفلت میں ڈوبتا دیکھا۔ آج خیروبرکت ہمارے گھروں کھیتوں اور کہیں بھی پورا وجود نہیں رکھتی۔ یہ حقیقت ہم پر اب عیاں ہوئی ہے اس وقت جدید مشینری کے ذریعے کھیتی باڑی کی جارہی ہے اسی زمین سے سوسو بوری گندم کی پیداوار ہوتی تھی اور آج دس سے پندرہ بوری بمشکل۔۔

کٹائی کا یہ عمل آٹھ دس روز رہتا اس کے بعد مقامی اوٹھی اپنے اونٹوں پر گندم لاد کر کھلیان تک پہنچایا کرتے تھے اور اپنا پہاڑہ وصول کرتے تھے جو اناج کی شکل میں ہوتا تھا۔ کھلیان پر ایک ڈھیر سا لگ جایا کرتا تھا اور کچھ دن بعد اس گندم کو کھلیان پر بکھیر کر گائے اور بیل کے پیچھے میڑھے باندھ کر گندم کو گہائی کے عمل سے گزارا جاتا۔ ہم اکثر ان میڑھوں پر بیٹھ کر سواری سے بھی لطف اندوز ہواکرتے تھے یوں دن بھر بکھری گندم پر جانوروں کو گھما گھما کر گہائی کے بعد گندم کو اکٹھا کیا جاتا اور ایک لمبا سا ڈھیر لگایا جاتا اور دور کہیں سے ہوا کا جھونکا آتا تو ترینگل کی مدد سے اس گندم کو ہوا میں اڑایا جاتا جس سے گندم کا بھوسہ الگ اور دانے الگ ہوا کرتے تھے۔

بعد ازاں گندم کے دانوں کا ایک بڑا سا ڈھیر لگ جاتا جسے گاؤں کے موچی کی مدد سے صاف کیا جاتا۔ کسان کرائی سے دانے ہوا میں اچھالتا اور موچی کا کام ان دانوں کی مزید صفائی کے لئے جھاڑو لگانا ہوتا تھا اس کے بعد گندم کے دانوں کی بوریاں بھریں جاتیں اور کسان اپنے کندھے یا کچھ فاصلہ ہوا تو گدھی کی پیٹھ پر بوری لاد کر اپنے گھروں تک پہنچایا کرتے تھے۔ ماضی میں گندم کی کٹائی کے زمانے بڑے دلچسپ بڑے سحر انگیز ہوا کرتے تھے۔ گاؤں میں ہمارے گھر کے عقب میں آباد ی نہیں تھی ایک جنگل سا تھا جنگلی جانور پرندے آزادانہ گھوما کرتے تھے۔

گندم کی کٹائی کے دنوں میں جب ہم صبح سویرے بیدار ہوتے تو ایک پرندہ جسے ہم مقامی زبان میں ڈورڑی کہتے تھے روزانہ اللہ رب العزت کی تسبیح بیان کرتا سنائی دیتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اس پرندے کا گھونسلہ ہم سے چالیس پچاس فٹ اونچا کھلے آسمان تلے معلق ہے لیکن ہمیں بعد میں پتا چلا کہ اس کا گھونسلہ تو زمین پر پھیلے کھپی کے پودوں میں ہے جس کے انڈے اور بچے بھی ہم کبھی کبھی چرا لیا کرتے تھے۔ وہ پرندہ چالیس پچاس فٹ کے فاصلے کی اونچائی پر اپنے معصوم سے پروں کو پھیلا کر ایک جگہ رک جاتا تھا اور اپنے رب کی تسبیح بیان کرتا رہتا تھا۔

برسوں بعد اس پرندے کی موجودگی بارے ہم نے ایک دفعہ اپنی والدہ محترمہ سے پوچھا کہ کیا اب بھی وہ پرندہ صبح منہ اندھیرے اٹھ کر کھلے آسمان کے نیچے ہوا میں معلق ہوکر اپنی معصوم سی بولی میں اپنے رب کی حمد سناتا ہے تو والدہ محترمہ نے ہمیں بتایا کہ نہیں اب وہ پرندہ ناپید ہوچکا ہے یہاں اس کی نسل ختم ہوچکی ہے اور اس کی آواز ایک عرصے سے سنائی نہیں دی۔

ہمارے ہاں مقامی سطح پر اب وہ ماضی کی یادیں ہی بچی ہیں اوراب ان یادوں کو سنانے والے بھی دھیرے دھیرے اس معصوم پرندے کی مانند غائب ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری طرح کے چند لوگ آج بھی ماضی کے اس خوبصورت زمانے کو یاد کرتے ہیں لیکن وہ زمانہ اب گزر چکا ہے بس یادیں ہی بچی ہیں باقی کچھ بھی نہیں بچا نہ وہ محبتیں رہیں نہ وہ رشتوں کے احترام رہے اور نہ ہی وہ اعلی اقدار اور روایات زندہ رہیں۔

زمانہ بڑی شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

فیصل رمضان اعوان

Faisal Ramzan Awan

فیصل رمضان اعوان روزنامہ اساس روزنامہ، جناح اور دیگر قومی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ایک نجی کمپنی میں جنرل منیجر ہیں۔