1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فضا بشام/
  4. نا شکری کفر ہے

نا شکری کفر ہے

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، ہم سب اپنی زندگی سے بیزار ہیں۔ کوئی بےروزگاری سے پریشان تو کوئی نوکری سے پریشان۔ کچھ لوگ پیسہ چاہتے ہیں توکچھ لوگ پیسے سے بڑھ کر چاہتے ہیں۔ کوئی خوش ہے تو کوئی اداس۔ ہر شخص سب کچھ چاہتا ہے، سب کچھ۔ لیکن! کرنا کچھ نہیں ہے، کچھ نہیں۔ سمجھ نہیں آتی بات کہ یہ ماجرہ کیا ہے۔ کچھ لوگ بیچارے کھانے کے لیے بھاگتے ہیں، اور کچھ کھانے کو ہضم کرنے کے لیے، یہ قدرت کا عجیب نظام ہے۔ کبھی بھی انسان کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں۔ جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے اسے بڑوں کو دیکھ کر یہ خواہش جاگتی ہے کہ میں بڑا کب بنوں گا، کب میں اس طرح آزادی سے زندگی گزاروں گا بغیر کسی روک ٹوک کے، اور بڑا ہوتے ہی اسے بچپن اچھا لگتا ہے، نہ کسی کی روک ٹوک اورنہ کوئی ذمہ داری۔ بے روز گار نوکری کے لئے بے چین ہے تو نوکری والا کا م سے پریشان۔ بڑے بوڑھے ٹھیک کہتے ہیں "سب کچھ ہے لیکن شکر نہیں "غریب بیچارہ پیسے کے لئے محنت کرتا ہے، امیر اس کو انویسٹ کرنے کا سوچتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی سوچ و آدات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ عادات تبدیل ہونا کوئی بری بات نہیں، لیکن نا شکری اور شکوہ کرنا بری بات ہے۔

آپ کے ارد گرد آپ سے (مالی و دنیاوی طور پر) بہتر لوگ بھی ہونگے اورآپ سے بدتر بھی۔ لیکن جانے انجانے آپ کو یہ ہی خواہش ہوگی کہ آپ سب سے بہتر بن جائیں، یعنی بہترین۔ یہ کوئی نہیں چاہتا کہ میں بدترین بنو ں، اصولاًایسا ہونا بھی نہیں چاہیے، لیکن شکر بھی نہیں کرنا کہ اللہ پاک نے مجھے اس سے بہتر بنایا۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو قرآن پڑھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، وہ بھی اس گناہ میں شریک ہوجاتے ہیں۔ اس بات سے مجھے کسی کا قول یا د آگیا، جو انھوں نے اپنے شوہر کے لئے عرض کیا۔

"اللہ نے صرف حج کو فرض نہیں کیا بلکہ اپنے اہل وعیال کی دیکھ بھال کرنے پر بھی زور دیا ہے۔"

بات یہ ہے کہ وہ شخص تقریباً ایک دو سال کے بعد حج کے لیے جاتا ہے، نماز و روزے کا بھی پاپند ہے، روزانہ قرآن کی تلاوت بھی کرتا ہے، لیکن اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے سے سے گریز کرتا ہے، بلکہ بخل کرتا ہے، گھر کی حالت خستہ ہوچکی تھی جس پر ان کی بیوی نے کہا کہ گھر کی مرمت کروالو تو انھوں نے سیدھا کہہ دیا کہ مجھے اس سال حج پرجانا ہے گھر کو ٹھیک کروانے کے لئے پیسے نہیں ہیں، جس پر ان کی اہلیہ نے یہ کلمات کہہ دیے۔ اور یقین جانیے میں نے بھی اس شخص کی زبا ن سےشکر کا لفظ نہیں سنا۔ (شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ حج کرنا اچھی بات ہے، لیکن ناشکری بھی کفر ہے۔ )

اگر یہ ہی معاملہ سب کا ہے تو انسان کیسے خوش ہوسکتا ہے اور کیسے مطمئن ہوگا اپنی زندگی سے، جب کہ اس کو شکر بھی نہیں کرنا اور نہ ہی اپنا دل بڑا کرنا ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا: "تم جتنا شکر کرو گے میں تمھیں اتنا نوازوں گا۔"(سورۃ ابراہیم، آیت7)اس بات پر میں اپنی رائے ضرور دوں گی۔ اللہ پاک سب کو آزماتا ہے، اپنے شکرگزار بندے کو بھی اور اس کو بھی جو اللہ کی نعمتوں کا شکر نہیں کرتا۔ دونوں کو ان کے طریقے سے آزماتا ہے۔ اپنےخاص بندے کو آزمائش دے کر، اور اس کے برعکس وہ لوگ جن کے زبان پر اللہ کا نام تک نہیں ہوتا انھیں دنیا کی ساری آسائیش وآرام دے کر۔

خاص بندہ کتنی بھی آزمائش سے دوچار ہو لیکن وہ ہمیشہ اپنے رب کو یا د کرتاہے، اور اس سے رحم کی گزارش کرتا ہے۔ اور صبر کرتا ہے، اور جب وہ آزمائش اللہ کے کرم سے ختم ہوجاتی ہے اس پر بھی اللہ کا شکر کرتا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا وہ سب اللہ کی بدولت ہوا۔

نا شکرا بندہ، جسے اللہ پاک نے سب کچھ دیا ہوتا ہے جس پر اس بندے کو اللہ کا شکر کرنا چاہیے، لیکن وہ اس کامیابی کو، اس شان و شوکت کواپنی محنت اور ذہانت کا نتیجہ سمجھتا ہے، اسے یہ غرور ہوتا ہے کہ یہ سب اس کے مرہونِ منت ہے۔ اسے ذرا برابر ایسا نہیں لگتا کہ میری ذہانت کےپیچھے اللہ کا ہاتھ ہے۔ اور جب اس سے یہ چیزیں ضبط کرلی جاتی ہیں تو وہ اللہ سے شکوہ کرنے لگتا ہے۔

اب دیکھا جائے تو تو اللہ پاک نے ایسے بندے کو سب کچھ دیا ہوتا ہے، لیکن اس کے پاس سکون جیسی نعمت سے محروم کیا گیا ہوتا ہے، اس کے برعکس وہ بندہ جو ہر حال میں اللہ کا شکر کرتا ہےکہ میں جو بھی ہوں، مجھے اللہ نے جو بھی دیا ہے میرے لیے کافی ہے، اسے سکون حاصل ہوتا ہے۔

تم جتنا شکر کرو گے اللہ تمھیں اتنا نوازےگا، یعنی اللہ تمھیں اتنا سکون دے گا۔ میرے نزدیک یہ ا صل بات ہے دولت و شہرت تو اللہ نے ان بندوں کو بھی دی ہوتی ہے جو جو تکبر کرتے ہیں لیکن انھیں سکون حاصل نہیں ہوتا۔ ان کا سارا پیسہ وقت اور فضول چیزوں پر وقف ہوجاتا ہے۔ ایک پریشانی ختم نہیں ہوتی تو دوسری ان کا انتظار کرتی ہے۔ ساری دولت و آسائش اس کے کسی کام کی نہیں رہتیں جب اسے ان مصیبتوں کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔

اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ لہذا مشکل وقت میں صبر کیجئے اور اچھے وقت میں اللہ کا شکر۔

فضا بشام

فضا بشام بی اے کی طالبہ ہیں۔ فلسفے کے مضمون سے بے حد لگاؤ رکھتی ہیں۔ قلم کا سہارا لے کر دوسروں تک اپنے مشاہدات منتقل کرنے کی خواہشمند بھی ہیں۔