1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. بس دستور سے کھلواڑ نہ ہونے پائے

بس دستور سے کھلواڑ نہ ہونے پائے

الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے جاری کردہ شیڈول واپس لے لیا ہے۔ 8 صفحات کے اعلامیہ میں وہ تمام وجوہات درج ہیں جو شیڈول کی منسوخی کا باعث قرار دی گئیں۔ مناسب ہوتا کہ یہ بھی بتادیا جاتا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے عدالتی عملہ دینے سے لاہور ہائیکورٹ نے بھی معذرت کرلی تھی۔

اس پر دو آراء نہیں کہ انتخابات ہی لُولی لنگڑی طبقاتی جمہوریت کا حُسن ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہاں جمہوریت کا "دورہ" اقتدار سے نکال دیئے جانے کے بعد "پڑتا" ہے۔

آپ پچھلے پچھتر برس کی تاریخ کے اوراق الٹ لیجئے۔ وقت کم ہے تو 2018ء کے بعد سے اپریل 2022ء کے درمیانی عرصہ کے عمران خان کے بیانات تلاش کیجئے۔ وہ خود اعتراف کرتے دیکھائی دیں گے کہ ملک کو باجوہ جیسا جمہوریت پسند آرمی چیف اس سے پہلے نصیب نہیں ہوا۔

ان کے "جمہوری" دور میں قانون سازی اور دوسرے معاملات کے لئے خفیہ ایجنسیاں"نگ" پورے کرنے کی ڈیوٹی دیتی تھیں۔ خان صاحب اب بہت سی باتوں کا اعتراف کرتے ہیں مگر ٹھہریں یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔

خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس اور فیصلے ہر دو پر ان کالموں میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا کہ فیصلہ دینے والے بنچ سے الگ ہونے والے جج صاحبان نے سوموٹو لینے کے جواز پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ازخود نوٹس نہیں بنتا ان ججز نے کچھ اور بھی کہا تھا اسے بھی رہنے دیجئے۔

سکیورٹی مسائل، دہشت گردی، پیسہ نہیں ہے، عملہ دستیاب نہیں۔ فوری طور پر ان چار نکات کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیا ہے۔ سکیورٹی مسائل اور دہشت گردی کو ایک طرف اٹھا رکھیئے کیونکہ یہ دونوں مسائل 2008ء، 2013ء اور 2018ء میں بھی تھے۔ پیسہ حکومت نے دینا ہے۔ نہ دینے کے حوالے سے جو وجہ بیان کی گئی وہ ڈھکوسلہ ہے۔ عملہ دستیاب نہیں۔

اولاً لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار خط لکھ کر الیکشن کمیشن سے کہہ چکے ہیں کہ زیرسماعت مقدمات میں التواء کے پیش نظر عدالتی عملہ فراہم کرنا ممکن نہیں انہوں نے سوا تین لاکھ مقدمات کا حوالہ بھی دیا۔

انتخابی عمل کیلئے باقی ماندہ عملہ مختلف صوبائی اور وفاقی محکموں سے لیا جاتا ہے۔ اس میں سے (ہم ابھی صرف پنجاب کی بات کررہے ہیں) 90 فیصد عملہ ان دنوں مردم شماری میں مصروف ہے۔

یہ مردم شماری ہی اصل مسئلہ ہے۔ ان سطور میں قبل ازیں بھی عرض کیا تھا کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد مشترکہ مفادات کونسل میں طے پایا تھا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ یہ معاہدہ نہ ہوتا تو سندھ اور بلوچستان پچھلی مردم شماری کے نتائج کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی تیاریوں میں تھے۔

سندھ میں پی پی پی اور ایم کیو ایم مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے ایک پیج پر تھے بلکہ اس نکتے پر اب بھی متفق ہیں کہ پچھلی مردم شماری میں صوبہ سندھ کی دو کروڑ آبادی کم ظاہر کی گئی۔ بلوچستان کا دعویٰ 40سے 45لاکھ کی آبادی کم ظاہر کرنے کا تھا۔

سندھ میں کچھ بلاکس کی دوبارہ مردم شماری کا لالی پاپ دیا گیا پھر وفاق پیچھے ہٹ گیا۔ 2018ء میں تحریک انصاف کو حکومت مل گئی۔ چند ماہ کی کوششوں سے مشترکہ مفادات کونسل نے فیصلہ کرلیا۔

بالائی سطور میں عرض کرچکا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری پر ہوں گے۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر یہی عرض کیا تھا کہ اگر تو دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ضمنی انتخابات شمار ہونے ہیں تو ان کے انعقاد میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر جیسا کہ دستوری ماہرین کہہ رہے ہیں کہ یہ الیکشن 5 سال کی مدت کے لئے ہوں گے تو پھر نہ صرف مسائل پیدا ہوں گے بلکہ مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ دیوار بن کر حائل ہوگا۔

بدقسمتی سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان دونوں نکات کو مدنظر نہیں رکھا گیا بلکہ اس بارے فاروق ایچ نائیک اور چند دوسرے وکلاء نے جو سوالات اٹھائے بنچ نے انہیں بھی مدنظر نہیں رکھا تب ایسا لگ رہا تھا کہ فیصلہ کرنے کی جلدی ہے۔

جلدی وقت کی کمی کی وجہ سے تھی یا کسی اور وجہ سے؟ اس سوال کا جواب سپریم کورٹ کے پاس ہے۔

اس ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اختلاف کرکے بنچ سے الگ ہونے والے ججوں نے ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ وہ نکتہ تھا "کیا کسی پیشگی معاہدہ کے تحت منتخب ہونے والا وزیراعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو بھجوائے گا تو یہ بدنیتی ہوگی یا قانونی حق؟"

مجھ طالب علم کے خیال میں اس سوال کا جواب دیا جانا فریقین اور بالخصوص پی ٹی آئی کے وکلاء سے لیا جانا ازبس ضروری تھا۔

بلاشبہ وزیراعلیٰ کو اسمبلی تحلیل کرنے کا حق ہے۔ قانون اس کے آڑے نہیں آتا مگر کیا اسمبلی توڑنے کے پیشگی معاہدے پر وزیراعلیٰ بننے والے شخص (جس کی وزارت اعلیٰ خود ایک عدالتی فیصلے کی محتاج ہو) کو یہ حق ہے کہ وہ سیاسی معاہدہ کی تکمیل میں اسمبلی تحلیل کردے؟

مکرر عرض کروں اہم ترین بات مردم شماری اور حلقہ بندیاں ہیں۔ خود انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی مبہم تھا۔ بالائی سطور میں بھی عرض کیا عدالتی فیصلے میں وضاحت ہونی چاہیے تھی کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ضمنی انتخابات ہوں گے یعنی باقی ماندہ مدت کے لئے یا پھر قانون کے مطابق پانچ سال کی مدت کے لئے؟

یہ اگر پانچ سال کی مدت کے لئے ہیں تو مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے سے یکسر انحراف ہوگا۔ اب ایک سوال یہ ہوا کہ کیا سپریم کورٹ، مشترکہ مفادات کونسل کے آئینی فیصلے سے انحراف کا راستہ کھولنے میں معاون بنی یا بنچ اس فیصلے کی اہمیت اور انحراف کی صورت میں پیدا ہونے والے مسائل کو سمجھنے سے عاری تھا؟

سپریم کورٹ کا کام آئینی نکات کی تشریح ہے۔ قانون سے تجاوز یا دستوری فیصلوں سے انحراف کا دروازہ کھولنا نہیں۔

فیصلہ کرنے والے معزز جج صاحبان نے یہ امر کیوں مدنظر نہیں رکھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے سے اگر دو صوبوں میں انحراف ہوا تو نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔

دو صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہوں اور پھر اکتوبر میں دو صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ قومی اسمبلی کے چاروں صوبوں کی نشستوں پر نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر کیا اس صورت میں دو صوبے آئینی اعتراضات نہیں اٹھائیں گے۔

انتخابی عمل کے لئے نگران حکومت کی عدم موجودگی جو گل کھلائے گی اس کا کیا ہوگا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتیں کسی کے پاس بھی ہوں کیاان دو صوبوں سے قومی اسمبلی کے نتائج دیگر فریق مان لیں گے؟

باردیگر عرض کئے دیتا ہوں اصولی طور پر یہ وہ سارے معاملات تھے جن پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران تفصیل سے بات کرنے، غور کرنے اور پھرفیصلہ سناتے وقت انہیں مدنظر رکھنے کی ضرورت تھی۔

لیکن ازخود نوٹس پر جو فیصلہ آیا اس فیصلے پر ہونے والی بحث سے اڑتی دھول پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ یہ خالصتاً آئینی اور قانونی معاملہ تھا۔ جس فورم کا دعویٰ یہ ہے کہ اسے آئینی و قانونی معاملات دیکھنے، تشریح کرنے کا حق ہے وہی فورم اگر ان نکات کی طرف سے آنکھیں بند کرلے تو نتیجہ کیا ہوگا۔ یہی جو ہمارے سامنے ہے۔

اسی سبب میری رائے یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سیاپا ڈالنے والے خواتین و حضرات کو ٹھنڈے دل سے اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ معاملات سلجھانے ہیں یا کسی کی خاطر یا فرمائش پر بگاڑنے ہیں؟

اس سارے معاملے میں جن پہلوئوں کو یکسر نظرانداز کیا گیا ان پر مستقبل میں اگر تنازعات اٹھے تو سنبھالے گا کون؟ اسی طرح فیصلہ دینے والے بنچ بارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی رائے کا تجزیہ بھی ضروری تھا۔ 9 ججز کا بنچ فیصلہ دینے تک 5 ججز کا بنچ رہ گیا۔

کیا دوبارہ سے سینئر ججز پر مشتمل بنچ نہیں بننا چاہیے تھا؟ الگ ہونے والے دو ججز کے اٹھائے نکات زیربحث نہیں آنے چاہئیں تھے؟ مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ کس اتھارٹی سے بلڈوز کیا گیا؟

ایک بار پھر یہ عرض کردوں کہ الیکشن کے التواء والے فیصلے میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا سبھی نے اپنی مجبوریاں ظاہر کیں اور مسائل کی نشاندہی۔ پی ٹی آئی اب اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کررہی ہے۔

یہ اس کا قانونی حق ہے۔ بہتر ہوگا کہ ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جن سوالات اور نکات کو نظرانداز کردیا گیا ان پر اب غور کرلیا جائے۔

بہت احترام کے ساتھ عرض ہے فرد، ادارے اور سیاسی جماعتوں کو نہیں، دستور کو بالادستی حاصل ہے اور دستور سے کھلواڑ نہیں ہونا چاہیے۔