1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. بلی کا بچہ

بلی کا بچہ

ارے ثمینہ یہ گتے کا ڈبہ یہاں رکھ دو۔ وہ چھوٹی سی گدی رکھی ہے نا لا کر اس ڈبے میں رکھ دو۔

یہ لیں باجی۔

اور یہ دوسرا ڈبہ یہاں اس طرف رکھو۔ وہ سامنے بڑا سا پیکٹ پڑا ہے نا لٹر بالز کا، اٹھا کر لاؤ۔ اس ڈبے میں تھوڑی سی ڈال دو۔ تھوڑی اور، بس، یہ پیکٹ وہیں رکھ آؤ۔ اب وہ کیٹ فوڈ کا پیکٹ لانا۔ ثمینہ، تمہارا دھیان کدھر ہے؟ بھئی وہ پڑا ہے کیٹ فوڈ کا پیکٹ سامنے فریج کے ساتھ۔ ہاں یہ۔ لاؤ اور اس پلیٹ میں تھوڑی سی ڈال دو۔ بس بس اتنی بہت ہیں۔ اور یہ ساتھ والے برتن میں پانی ڈال دو۔

ارے یہ کیا گہما گمہی ہے یہاں۔ کیا ہو رہا ہے؟

امی۔ وہ حارث آج بلی کا بچہ لیکر آنے والے ہیں۔ فاریہ کو کتنا شوق ہے۔ کب سے ضد کر رہی تھی کہ بلی لینی ہے، سب اس کی تیاری ہے۔

اچھا، لو وہ آ گیا حارث۔

السلام علیکم امی جی۔

وعلیکم السلام۔ جیتے رہو۔

یہ لو بھئی فاریہ اپنی بلی۔

ارے۔ کتنی پیاری ہے، اچھا کیا حارث تم یہ لے آئے گھر میں، جانور جو کھاتے ہیں نا وہ بھی صدقہ ہی ہوتا ہے۔

مگر امی آج کل ملکی حالات کچھ اچھے نہیں چل رہے نا تو کام پر بھی اثر پڑا ہے۔ اس لیے میں نے تو بہت کہا کہ ابھی رک جاؤ کچھ حالات بہتر ہوتے تو لے آتے ہیں بلی، مگر یہ بچے تو کسی کی بات سنتے ہی نہیں۔ اب دیکھیں نا امی کہنے کو ایک بلی کا چھوٹا سا بچہ ہے مگر اس کا کھانا، علاج اور دیگر چیزوں کا ماہانہ خرچ تقریباً تین چار ہزار روپے ہے۔ صرف ناخن کاٹنے کے پانچ سو لیتے ہیں ڈاکٹر۔

ارے بیٹا بس مہنگائی بھی تو بہت ہو گئی ہے نا۔

جی امی۔ اسی نے ادھ موا کر کے رکھا ہے۔

ارے ثمیہ تمہارے بھی تو نیا مہمان آ رہا، تم کیا تیاری کر رہی ہو اس کے استقبال کی؟

خالہ ہم نے کیا تیاری کرنی ہے۔ جہاں کچرے کے ڈھیر پر پہلے والے سات پل رہے یہ بھی پل جائے گا۔ آپ کو تو پتہ میرا میاں کام وام تو کرتا نہیں کوئی۔

کام نہیں کرتا۔ آمدن کم ہے تو بچے کیوں پیدا کیے جاتے ہو پھر؟

لو خالہ، میرا میاں کہتا یہ تو خدا کی دین ہے اور یہ بھی کہ اللہ بڑا رازق ہے۔ اور آنے والا تو اپنا رزق ساتھ لیکر آتا ہے نا۔

ثمینہ یہی تو سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ اللہ کریم نے انسان کو بہت تکریم بہت عزت دی ہے۔ وہ اس کو اپنی سب سے اعلیٰ مخلوق قرار دیتا ہے، اسی لیے انسانوں کے بچوں کو باقی مخلوق سے مختلف بنایا ہے۔ انہیں صرف کھانا پینا ہی نہیں اچھا عزت والا ماحول، بہترین تعلیم اور زبردست تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تب جا کر یہ معاشرہ کے مفید فرد اور اچھے انسان بنتے ہیں۔

اگر ہم بچوں کو یہ سب فراہم نہ کر سکیں تو یہ اللہ کریم کی اس قدر شاندار تخلیق کی توہین ہے۔ اس کی اعلیٰ ترین نعمت کا کفران ہے۔ اور اللہ اپنی نعمتوں کی بے قدری کرنے والوں پر غضبناک ہوتے ہیں۔ اور ویسے بھی ہم اپنے ارد گرد لوگوں کو غربت کے ہاتھوں خوار ہوتے، خود کشیاں کرتے نہیں دیکھتے کیا؟ اللہ تو ان کا بھی رازق ہوتا ہے نا۔

لیکن اللہ نے انسان کو سمجھ، عقل اور حکمت سے نوازا ہے۔ اور حکمت کا تقاضہ یہی ہے کہ جتنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کر سکیں بس اتنے بچے ہی ہوں۔ نہ کہ بے تحاشہ بچے پیدا کر کے ان کو لاوارث چھوڑ دیا جائے۔ نہ تعلیم دلا سکیں نہ تربیت کر سکیں اور وہ بڑے ہو کر مفید شہری اور اچھا انسان بننے کی بجائے چور، ڈاکو بنتے پھریں۔