1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. گلاب کی پتیوں کا پلاؤ

گلاب کی پتیوں کا پلاؤ

چین کے طول و عرض میں سی فوڈ sea food ریستوران علیحدہ سے ہوتے ہیں۔ جن پر مچھلی، جھینگے، کیکڑے اور دیگر آبی جانداروں سے بنے مختلف کھانے دستیاب ہوتے ہیں۔ چھوٹے شہروں میں جہاں مسلمانوں کے لیے حلال کھانوں کی دستیابی نہیں ہوتی وہاں پھر سی فوڈ ہم پاکستانیوں کے لیے آخری انتخاب ہوتا ہے۔

بہت سے شہروں اور قصبوں میں درجنوں بار سی فوڈ ریستوران سے کھانے کا اتفاق ہوا۔ کبھی بھی کہیں بھی تلی ہوئی مچھلی نہیں دیکھی یا کھائی۔ ہر جگہ بھاپ پر پکی، یا شوربہ والی یا سبزیوں کے ساتھ بنی ہوئی مچھلی ہوتی ہے۔ کہیں ایک آدھ بار کوئلوں پر بنی ہوئی ملی ہوگی۔ دوسری طرف پاکستان بھر میں شاید ہی کوئی ریستوران ایسا ہو جہاں بھاپ یا شوربہ والی مچھلی دستیاب ہو۔

مچھلی میں اومیگا تھری اپنی اصلی شکل میں موجود ہوتا ہے۔ جو انسانی جسم میں اومیگا تھری اور اومیگا سکس کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ جدید ترین تحقیق کے مطابق دل اور خون کی نالیوں کے بیشتر امراض اومیگا تھری اور اومیگا سکس کے اس توازن کے بگڑنے کے باعث ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ سویا بین، سافلاور اخروٹ یا السی کے تیل میں جو اومیگا تھری الفا لینولک ایسڈ ہوتا ہے وہ انسانی جسم براہ استعمال نہیں کر پاتا۔

انسانی جسم میں کو آئیکوسا پینٹونوئک Eicosapentaenoic acid جس کا اختصار EPA اور Docosahexaenoic acid ڈوکوسا ہیگزانوئیک ایسڈ جس کا اختصار DHA لکھا جاتا ہے، استعمال کے لیے چاہیے ہوتے ہیں۔ نباتاتی تیل سے حاصل الفا لینولک ایسڈ کی بہت قلیل مقدار ان میں تبدیل ہو پاتی ہے۔ اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ ہفتہ میں کم از کم دوبار مچھلی استعمال کریں۔ لیکن جب مچھلی ہم تلی ہوئی کھاتے ہیں تو سمجھیں کہ اس کی افادیت تقریباً ختم کر لی کیونکہ وہ تیل سے بھری ہوتی ہے۔ جس میں کثیر مقدار میں اومیگا سکس ہے۔ آسانی کے لیے یوں سمجھ لیں کہ دودھ میں چینی زیادہ ہو گئ تو اس میں سادہ دودھ کی جگہ چینی ملا دودھ ہی ڈال کر چینی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اب سوچیں کہ مچھلی ہم تلی ہوئی کیوں کھاتے ہیں۔ ایک تو وجہ یہ ہوگی کہ ہمیں علم نہیں ہو کہ تلی ہوئی چیز نقصان دہ ہے اور ہم جہالت میں کھا رہے ہوں۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہمیں معلوم تو ہو کہ بھاپ یا شوربہ والی مچھلی بہترین ہے مگر ہم زبان کے ذائقہ کے اسیر ہیں اور جان بوجھ کر اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ یہ کیفیت جاہلیت کہلاتی ہے۔ سچ پوچھیں تو ہم خوراک کے عہد جاہلیت میں جی رہے ہیں۔ ہمارا شاید ہی کوئی روایتی یا رسمی کھانا صحت بخش ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ذیابیطس اور دل کے امراض کی کثرت میں ہم وطنوں کا نمبر پہلا ہے۔

اس معاملے میں سماج کا تانا بانا اتنا سخت ہے کہ کوئی شخص انتہائی خواہش کے باوجود بھی مسلسل صحت بخش کھانا نہیں کھا سکتا۔ کیونکہ بازار میں، رشتہ داروں کے ہاں یا تقریبات میں کہیں نہ کہیں مجبوراً ہمیں بے احتیاطی کرنا پڑ جاتی ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی صحت کے اصولوں کے مطابق کھانے کی چیز بنا بھی لے تو اس پذیرائی نہیں ہوتی۔ وجہ وہی کہ سب زبان کے ذائقہ کے اسیر ہیں۔

اس کی تازہ مثال ہماری بہن Fozia Badar کا ایرانی پلاؤ ہے۔ جو ان کے کیفے گرین پر دستیاب ہے۔ گلاب کی پھولوں کی پتیوں اور زرشک شیریں سے بنا مرچ مصالحہ جات کے بغیر کونڈی ڈنڈے میں ہاتھ سے کوٹ کر بنائے گئے شامی کباب لذیذ اور مصنوعی رنگوں سے پاک آلو بخارے کی چٹنی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ مگر ہم کہ ٹھہرے روغنی اور مصالحہ جات سے لبریز بریانی کے رسیا سو بھاتا ہی نہیں۔ یہی ڈش اگر کسی اور جگہ ہوتی تو شاید ان سے آرڈر پورے نہ ہوتے۔

ہماری رائے میں خوراک کے متعلق بنیادی معلومات ہمارے بچوں کی بنیادی تعلیم کا لازمی جزو ہونا چاہیے، کہ ساری زندگی ساتھ بناہنے والے بیچارے اس جسم کے تقاضوں سے تو باخبر ہوں کہ کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں۔ ہم بڑے تو زبان کے چسکے کے مارے شاید نہ سدھر سکیں کم از کم آنے وال نسل تو بیماریوں میں نمبر ون نہ رہے۔