1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. جاڑے کا مارا

جاڑے کا مارا

ذہنی اور جذباتی طور پر لاکھ جواں سال سہی، لیکن جسم تو بہر حال پیرانہ سالی کے جادہء پرپیچ و نامہربان کے در آشفتہ نیم وا پر دستک اطلاعی دے رہا ہے۔سو اس کے احتیاطی وحفاظتی تقاضہ ہائے من جملہ بطور خاص بابت موسم سرد کا اہتمام، سراسر بے عیب وبے تقصیرہی کیا جاتا ہے۔بہ مثل پشمی چست جامہ زیر پتلون، بھاری گف کی، بند گلہ کی اونچی بنیان پر خالص نائلون کے دھاگے کی بنی موٹی قمیص۔اس پر کسی ہم حجم فوت شدہ فرنگی کا متروک بھاری بھر کم کوٹ۔درونِ کوٹ ایک عدد سہواً یا ارادتاً ابلا یا ابالا ہوا اونی سویٹر۔

(یاد رہے کہ ابلے ہوئے انڈے اور ابلے ہوئے مرغ و غنم کی مانند ابلا ہوا سوئیٹر بھی دافع سردی ہے۔کہ ابلنے سے اون کے ریشوں میں ٹھنڈک کی ریشہ دوانیوں کے خلاف قوت مدافعت بہت بڑھ جاتی ہے۔گویا ان میں ایک طرح کی ہم آہنگی اور بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے جس سے وہ انتہائی قریب ہوجاتے ہیں اور کسی بھی خنک ہوائی جارحیت کا بہتر مقابلہ کرتے ہیں ۔وہ الگ بات ہے کہ ابلنے کے بعد ایک سو بیس کلوگرام والے چوہدری صاحب کا سویٹر بمشکل ساٹھ کلوگرام والے بشیر بھائی کو ہی متناسب منطبق ہوتا ہے.)۔گھٹنوں تک بلند اونی موزے۔تا آغاز گردن تابہ کان وبالائے کان مفلر میں ملفوف۔سر پر ٹوپی اور ہاتھوں پر چرمی دستانے۔

مگر بجز اس ہزار انصرام اور کامل قلعہ بندی و صف آرائی، خطہ لاہور کے وسط دسمبر کے کمبخت جاڑے کی منجمد کرنے والی ہوائیں کسی طور ہمارے اعضائے خفیف و خفیہ تک رسائی حاصل کرہی لیتی ہیں، بطور خاص بوقت صبح۔اور نتیجتاً ہمارے اندام ہائے رئیسہ بصور خاصہ بازو اور ٹانگیں، ہلکے ہلکے مرتعش ہوجاتے ہیں بالکل ڈھول کے پردہ کی مانند۔یا آلہ سمع وبصر دستی کہ جو سبک صوتی کے بنا محض بحالت ارتعاش مستعمل رہا ہو۔اور اگر کبھی درجہ حرارت بلکہ درجہ برودت کم ہوا تو اس ارتعاش طبعی کی معیت دانتوں کی کڑکڑاہت بھی کرتی ہے۔کہ جس کی کڑکڑاہت کے تعدی کا انحصار ہوا کی مقدار اور خنکی کے معیار پر ہوتا ہے۔یعنی کبھی تو کٹ کٹ کٹ۔کٹ کٹ کٹ۔اوراور کبھی کٹ کٹا کٹ۔کٹ کٹا کٹ اور ساتھ اوووو کی آواز بھی۔

ہماری تحقیق کے مطابق اس ناہنجار عدو ناپسندیدہ یعنی ہوائے یخ بستہ کے دخول کے مراکز بالعموم ساق پوش کے دہانے یعنی پائنچے، سر آستین گویا کف، کاج بٹنوں کے سوراخ اور گردن کے گرد موجود گذرگاہیں ہوتی ہیں ۔اور یہ بھی ہماری ہی تحقیق ہے کہ ان گزر گاہوں پر جیسا بھی اور جتنا بھی کڑا پہرہ بٹھال لیں حریف مذکور جسم اطہر تک رسائی حاصل کرہی لیتا ہے اور نتیجہ وہی کپکپکاہٹ و کڑکڑاہت ہمارا مقدر ٹھہرتی ہے۔ہوائے یخ بستہ کا یہ فن رسائی بدن، ہماری نگاہ خائف میں بالکل سرکار کے احتساب کے اداروں کے ان بےرحم ہرکاروں کی استعداد کھوج سا ہے جو شریف سے شریف بدعنوان زرداروں کے خفیہ اثاثوں تک بھی رسائی حاصل کرلیتے ہیں ۔یا کسی بدطنیت، ناہنجار عاشق کوتاہ فکر کے اس عارضہ عمیق بینی سا کہ جس کے نشانہ نگاہ سے باحجاب و مستور محبوب کے خدو خال بھی پوشیدہ نہیں رہتے۔

اگلے روز کا قصہ سنئیے۔ہم علی الصبح، سرمائی تباہ کاریوں کے خلاف کامل آراستہ وپیراستہ مع تمام تر مواظبت و مراقبت، اپنی ٹوٹی کرولا پر محو سفر جانب منزل تھے۔وقت کے بےرحم تھپیڑوں سے شکست خوردہ ہماری ٹوٹی کرولا جا بجا ان چاہے، ان دیکھے ایسے سوراخوں سے بھی مزین ہو چکی ہے جو گاڑی بنانے والے انجینئرز کی منصوبہ بندی میں کسی طور شامل نہ تھے۔سو ان بے نام سوراخوں سے در اندازحملہ آور صرصر بارد اپنے پسندیدہ راہگذروں سے ہوتی ہوئی ہمارے شریر بے شرر کو برفا رہی تھی۔بمطابق معمول اعضائے متعلقہ ہولے ہولے کپکپا اور کٹکٹا رہے تھے۔گاڑی کی رفتار کی مناسبت سے ہوا کی مقدار کم زیادہ ہوتی تو کبھی کپ کپاہٹ کا حیطہ بڑھ جاتا اور کبھی کٹکٹاہٹ کی تعدی۔دفعتاً ہماری نظر سامنے جارہے ایک رکشہ پر پڑی۔جس پر جلی حروف میں درج تھا۔

"ماواں ٹھنڈیاں چھاواں"

ٹھنڈ سے ادھ موئے ایک مستقبل کے بزرگ پر کیا بیتی ہوگی۔آپ تصور نہیں کرسکتے۔اس زور کی جھرجھری آئی کہ ٹوٹی کرولا اگر مقفول نہ ہوتی تو ہم شاید سڑک پر اس کے متوازی لڑھک رہے ہوتے۔اس روز ہمیں شدت سے احساس ہوا کہ محاورے موسموں کے اعتبار سے مرتب ومستعمل ہونے چاہئیں ۔مثال کے طور پر سردیوں میں یہ محاورہ کچھ یوں ہونا چاہئے تھا۔

ماواں کَوسیاں دُھپاں۔

اور ہاں خبردار جو یہ محاورہ کسی نے گرمیوں میں رکشہ پر لکھا۔