1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. کریں تو کیا؟

کریں تو کیا؟

معاملات جس قدر سنجیدگی کے متقاضی ہیں کیا ہم اجتماعی اور انفرادی سطح پر اس قدر سنجیدہ ہیں؟ اس وقت انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنی توانائیاں اپنے محب راہنماؤں کی قصیدہ گوئی اور آنے کے فیصلوں کی توثیق کرنے میں لگانے کی بجائے ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کیلئے ممکنہ حل پر خرچ کریں۔ اور اپنے ممدوح راہنماؤں تک وہ حل پہنچائیں (اگر انہوں نے آپ کو رسائی کی ایسی سہولت دے رکھی ہے)۔

وطن عزیز کے گھاٹے میں چلنے والے ادارے بشمول ڈسکوز، ریلوے، قومی ائیر لائن اور دیگر سالانہ ہزار ارب روپے کے قریب کھا جاتے ہیں۔ اس خسارے کو نیک نیت اور بہتر انتظامی صلاحیتوں سے ختم نہیں تو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس خسارے کو کم کرنے کے مسلسل اور ہر سطح پر آواز اٹھائی جائے۔ سرکاری افسران اور عوامی نمائندوں کی شاہ خرچیوں اور بدعنوانیوں پر ثبوت کے ساتھ بات کی جائے۔

ہمارا ایک بڑا مسئلہ آبادی میں تیز رفتار اضافہ ہے۔ دو ہزار بیس اور اکیس میں ہماری شرح نمو بالترتیب دو اور ایک اعشاریہ نو پانچ فیصد رہی گویا صرف دو سال میں اٹھاسی لاکھ بچے وطن عزیز میں پیدا ہوئے۔ صرف ان نوزائیدہ کے لیے کم از کم اٹھارہ ہزار نئے سکول چاہئیں جب کہ دو کروڑ بچے پہلے ہی سکول نہ ہونے کے باعث تعلیم سے محروم ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پر باقاعدہ نئے سکولوں کی تعمیر آخری دفعہ بارہ سال پہلے ہوئی تھی۔

میری نظر میں ملک کو بحران سے نکالنے کا مستقل حل انسانوں پر سرمایہ کاری ہے۔ لوگوں کی تربیت کریں، ان کی قابلیت بڑھائیں، تربیت یافتہ افراد کو باہر بھیجیں اور مقامی صنعتوں اور آئی ٹی ہاوسز میں کام پر لگائیں۔ قابل ہنرمند افراد، زراعت میں، مشینری میں، کیمیائی مرکبات، الیکٹرانکس، پلاسٹک کے میدان، سمیت ہر ہر شعبے میں برآمد کے قابل معیار کی اشیاء بنائیں۔ ایک بڑی تعداد اشیاء برآمد کرنے کے متعلق کورسز کروائے جائیں۔ اور سب مل کر دیانتداری اور تندہی سے کام پر لگ جائیں۔ بہتری کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ مگر راستہ صرف اور صرف یہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہر لحاظ سے اور ہر سطح پر ارباب اختیار پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ ملکی مفادات میں چاہے جتنے بھی مشکل فیصلے کریں ہم ان کی ساتھ ہیں مگر سماج سے اشرافیہ اور غریب عوام کی تفریق ختم کریں۔ پٹرول اور بجلی کے مہنگا ہونے کا اثرات تو جبھی ہوں گے نا جب بیورو کریسی اور عوامی نمائندے ان کے بل اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ بصورت دیگر عوام سے قربانیوں کے تقاضے کی یہ نہ ختم ہونے والی داستان بالآخر کسی بڑی اور انتہائی ان چاہی قربانی پر جا کر ختم ہو جائے گی۔